امریکہ میں جون کے دوران صارفین کی خریداریوں میں گزشتہ 13 سال کا سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا، جس سے یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث مارکیٹ میں اشیا کی فراہمی میں کمی جب کہ خریداری میں اضافہ ہوا جس سے بہت سی چیزوں اور سروسز کی قیمتیں بڑھ گئیں۔
منگل کے روز محکمہ محنت کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ماہ قبل کے مقابلے میں جون میں قیمتوں میں اعشاریہ 9 فی صد اضافہ ہوا جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 5 اعشاریہ 4 فی صد زیادہ ہے۔ یہ اگست 2008 کےبعد سے 12 مہینوں میں ہونے والا افراط زر کا سب سے بڑا اضافہ ہے۔
اس دوران پیٹرول کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال افراط زر میں ساڑھے چار فی صد اضافہ ہوا جو نومبر 1991 کے بعد سب سے زیادہ اضافہ تھا۔
ملک میں افراط زر میں اضافہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب ملکی معیشت عالمی وبا کے اثرات سے نکل کر تیزی سے بحال ہو رہی ہے، جس سے ممکنہ طور پر فیڈرل ریزرو اور بائیڈن انتظامیہ اور کانگریس کے ری پیلیکن ارکان کے درمیان اس کے متعلق بحث مباحثہ بڑھ سکتا ہے۔
فیڈرل ریزرو اور وائٹ ہاؤس یہ کہہ چکے ہیں کہ افراط زر کی موجودہ لہر عارضی نوعیت کی ہے۔ جیسے ہی اشیا کی فراہمی میں رکاوٹیں دور ہوں گی، معیشت اپنے معمول کی سطح پر لوٹ جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ استعمال شدہ کاروں، ہوٹل کے کمروں اور فضائی سفر کی ٹکٹوں کی قیمتوں میں اضافہ افراط زر ختم ہونے کے ساتھ ہی واپس چلا جائے گا۔
پی این سی فنانشل سروسز کے ایک ماہر اقتصادیات گس فیچر کہتے ہیں کہ حالیہ مہینوں میں افراط زر کے اونچے نمبروں نے آنکھیں کھول دی ہیں، لیکن بنیادی افراط زر ابھی بدستور قابو میں ہے۔ اس وقت کچھ چیزوں کی، مثال کے طور پر پرانی گاڑیوں، ہوائی جہاز کے ٹکٹوں، کرائے کی گاڑیوں اور ہوٹل کے کمروں وغیرہ کی قیمتیں بڑھی ہوئی ہیں، کیونکہ عالمی وبا کے اثرات میں کمی سے معیشت بحالی کی جانب بڑھ رہی ہے۔
لیکن اس کے باوجو افراط زر کی مسلسل اونچی سطح سے کم ترین شرح سود کی پالیسی متاثر ہو سکتی ہے۔ اس پالیسی کا مقصد قرض لینے اور اخراجات کے لیے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ اگر بڑھتے ہوئے افراط زر سے یہ پالیسی متاثر ہوتی ہے تو اس سے معاشی بحالی کے عمل کو دھچکا لگ سکتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے مہینے استعمال شدہ کاروں کی قیمتوں میں ساڑھے 10 فی صد اضافہ ہوا جو جنوری 1953 کے بعد سے سب سے زیادہ اضافہ تھا۔ اسی طرح جون کے مہینے میں ہوٹلوں کے کمروں کا کرایہ 7 فی صد بڑھ گیا۔ نئی کاروں کی قیمت 2 فی صد بڑھی جو 1981 کے بعد سے سب سے بڑا اضافہ تھا۔
ریستورانوں میں اشیا کی قیمتیں گزشتہ سال کے مقابلے میں 4 اعشاریہ 2 فی صد بڑھ گئیں، جس کی وجہ کارکنوں کی تنخواہوں میں اضافہ ہے۔ گھر کے فرنیچر کی قیمتیں گزشتہ سال کے مقابلے میں 8 اعشاریہ 6 فی صد زیادہ ہو چکی ہیں۔
قالین اور ٹائلیں بنانے والی کمپنی موہاوک نے کہا ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں 6 سے 10 فی صد تک اضافہ کرنے والی ہے، جو ایک سال کے دوران تیسری بار ہونے والا اضافہ ہے۔ اسی طرح کھانوں میں استعمال ہونے والے مصالحہ جات بنانے والی ایک بڑی امریکی کمپنی مک کورمک نے کہا ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہے کیونکہ اسے اب خام مال مہنگا مل رہا ہے۔
امریکیوں کا خیال ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ افراط زر اپنی پرانی سطح پر واپس آ جاتا ہے۔ فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک نے پیر کے روز جاری کیے جانے والے اپنے ایک سروے میں بتایا ہے کہ اب سے ایک سال تک افراط زر کی شرح 5 فی صد تک برقرار رہ سکتی ہے اور وہ تین سال میں واپس ساڑھے تین فی صد کی سطح پر چلی جائے گی۔
فیڈرل ریزرو کا خیال ہے کہ افراط زر کچھ عرصے کے لیے ان کے 2 فی صد کے ہدف سے اونچا رہے گا، کیونکہ گزشتہ دس سال کے دوران یہ سطح ہدف سے نیچے تھی۔
تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ فیڈرل ریزرو کے عہدے دار طویل مدت کے لیے افراط زر کی کس شرح کو جاری رکھنے کے حق میں ہیں۔ کچھ اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ افراط زر کی موجودہ شرح اس سال کے آخر تک کم ہونے کے باوجود تین فی صد سے کافی اونچی رہے گی۔
جون میں فیڈرل ریزرو کے عہدے داروں کی میٹنگ میں اس بات پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا کہ ملکی معیشت بہتر رفتار سے ترقی کر رہی ہے، تاکہ وہ بانڈز کی ماہانہ خریداریوں کو کم کرنے میں حق بجانب ہو سکیں۔ ان خریداریوں کا مقصد طویل مدتی سود کی شرح کو نیچا رکھنا اور زیادہ قرض لینے اور اخراجات کی حوصلہ افزائی ہوتا ہے۔