مئی سے اب تک مکئی کے مستقبل کے سودوں کی قیمتوں میں تیس فیصد کا اور سویابین میں 20 فیصد کا اضافہ ہو ا ہے ۔
امریکہ میں گرمی کی حالیہ لہر اور خشک سالی کی وجہ سے اس سال فصلوں کی پیداوار میں بھاری کمی کا خدشہ ہے۔ اس کے نتیجے میں مکئی اور سویا بین جیسی غذائی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امکان یہی ہے کہ صارفین کو سپر مارکٹس میں اپنی ضرورت کی چیزوں کی زیادہ قیمتیں ادا کرنی پڑیں گی ۔ امریکہ میں فصلوں کی پیداوار میں کمی اور قیمتوں میں اضافے کے دنیا کے دوسرے حصوں میں، خاص طور سے ترقی پذیر ملکوں میں دور رس اثرات پڑیں گے۔
امریکہ میں گرمی کا موسم شروع ہوئے چند ہی ہفتے ہوئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ 2012 میں ، گرمی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے ۔ اور امریکی کاشتکاروں کے لیے یہ خاص طور سے مشکل سال ہو گا۔ اناج کی پیداوار کے ماہر ٹیری روگنسیک کہتے ہیں’’1988 کے بعد یہ امریکہ کا خشک ترین سال ہے، اور اس سے مکئی کی پیداوار پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔ تین ہفتے بعد، سویا بین کی فصل کی باری آئے گی اور اس کی فصل بھی خراب ہو جائے گی۔‘‘
فصلوں کی پیداوار پر ، گرم، خشک موسم کے بڑے ڈرامائی اثرات ہو سکتے ہیں ۔ اگر جلد ہی بارشیں نہ ہوئیں، تو کاشتکار میٹ ہفس کی ایک تہائی فصل ضائع ہو جائے گی۔ وہ کہتے ہیں’’ہم اس خشک سالی کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سب کچھ برباد ہو جائے گا ۔ مکئی کے پودے مرجھا رہے ہیں اور سویا بین کے پودوں کی افزائش رک گئی ہے ۔ میں سوچتا ہوں کہ میں نے اس فصل پر کتنی محنت کی ہے ، اور میرا سارا وقت، اور ساری محنت مٹی میں مل جائے گی۔ ‘‘
پیداوار کم ہوگی تو اشیاء کی قیمتیں بڑھ جائیں گی ۔ مئی سے اب تک مکئی کے مستقبل کے سودوں کی قیمتوں میں تیس فیصد کا اور سویابین میں 20 فیصد کا اضافہ ہو ا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ڈبل روٹی، دودھ مکھن اور پنیر، اور گوشت کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ صرف امریکی صارفین کے لیے نہیں، بلکہ بیرونی ملکوں میں بھی۔
سری نواس تھروودانتھی ماہرِ معاشیات ہیں اور جیروم لیوے فارکاسٹنگ سنٹرسے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’چین کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں گوشت کا خرچ سب سے زیادہ ہے ۔ چین میں گوشت کی قیمت کا انحصار ا ن چیزوں کی قیمتوں پر ہوگا جو مویشیوں کو کھلائی جاتی ہیں۔‘‘
ایشیا سے مشرقِ وسطیٰ تک جن ملکوں میں حال ہی میں خوشحالی آئی ہے، وہاں گوشت کے خرچ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔ گوشت کی قیمت میں اضافے سے ان ملکوں کے لیے ایک مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔ وہ ملک بھی جنہیں غذا کے معاملے میں خود کفیل سمجھا جاتا ہے، اس کے اثرات محسوس کریں گے ۔
سری نواس تھروودانتھی کہتے ہیں ’’مثال کے طور پر بھارت کو لیجیئے۔ اچھے سال میں یہ چینی بر آمد کرتا ہے۔ لیکن اگر فصل خراب ہو تو اسے چینی در آمد کرنی پڑتی ہے کیوں کہ اگرچہ یہ دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ چینی بنانے والا ملک ہے، لیکن اس کا شمار چینی استعمال کرنے والے سب سےبڑے ملکوں میں ہوتا ہے ۔ لیکن ٹھیک اس سال جب اسے چینی درآمد کرنی پڑ رہی ہے، عالمی منڈی میں حالات سازگار نہیں ہیں، اور اس سے صارفین کے لیے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔‘‘
دنیا کے بہت سے علاقوں میں اقتصادی اور سیاسی عدم استحکام سے مسئلہ اور زیادہ سنگین ہو جائے گا ۔ امریکہ کے زرعی پیداوار والے خطے میں اگر بارش نہ ہوئی، یا گرمی سے نجات نہ ملی، تو تھروودانتھی کے خیال میں ، بعض ملکوں میں غذا کی قلت ہو سکتی ہے، ممکن ہے ان ملکوں میں راشننگ کرنی پڑے بلکہ بھوک کا مسئلہ پیدا ہو جائے ۔ یہ وہ ملک ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ غذائی اشیاء بر آمد کرنے والے ملکوں کی طرف سے کثیر مقدار میں غذا کی فراہمی پر انحصار کرتے ہیں ۔
امریکہ میں گرمی کا موسم شروع ہوئے چند ہی ہفتے ہوئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ 2012 میں ، گرمی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے ۔ اور امریکی کاشتکاروں کے لیے یہ خاص طور سے مشکل سال ہو گا۔ اناج کی پیداوار کے ماہر ٹیری روگنسیک کہتے ہیں’’1988 کے بعد یہ امریکہ کا خشک ترین سال ہے، اور اس سے مکئی کی پیداوار پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔ تین ہفتے بعد، سویا بین کی فصل کی باری آئے گی اور اس کی فصل بھی خراب ہو جائے گی۔‘‘
فصلوں کی پیداوار پر ، گرم، خشک موسم کے بڑے ڈرامائی اثرات ہو سکتے ہیں ۔ اگر جلد ہی بارشیں نہ ہوئیں، تو کاشتکار میٹ ہفس کی ایک تہائی فصل ضائع ہو جائے گی۔ وہ کہتے ہیں’’ہم اس خشک سالی کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سب کچھ برباد ہو جائے گا ۔ مکئی کے پودے مرجھا رہے ہیں اور سویا بین کے پودوں کی افزائش رک گئی ہے ۔ میں سوچتا ہوں کہ میں نے اس فصل پر کتنی محنت کی ہے ، اور میرا سارا وقت، اور ساری محنت مٹی میں مل جائے گی۔ ‘‘
پیداوار کم ہوگی تو اشیاء کی قیمتیں بڑھ جائیں گی ۔ مئی سے اب تک مکئی کے مستقبل کے سودوں کی قیمتوں میں تیس فیصد کا اور سویابین میں 20 فیصد کا اضافہ ہو ا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ڈبل روٹی، دودھ مکھن اور پنیر، اور گوشت کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ صرف امریکی صارفین کے لیے نہیں، بلکہ بیرونی ملکوں میں بھی۔
سری نواس تھروودانتھی ماہرِ معاشیات ہیں اور جیروم لیوے فارکاسٹنگ سنٹرسے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’چین کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں گوشت کا خرچ سب سے زیادہ ہے ۔ چین میں گوشت کی قیمت کا انحصار ا ن چیزوں کی قیمتوں پر ہوگا جو مویشیوں کو کھلائی جاتی ہیں۔‘‘
ایشیا سے مشرقِ وسطیٰ تک جن ملکوں میں حال ہی میں خوشحالی آئی ہے، وہاں گوشت کے خرچ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔ گوشت کی قیمت میں اضافے سے ان ملکوں کے لیے ایک مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔ وہ ملک بھی جنہیں غذا کے معاملے میں خود کفیل سمجھا جاتا ہے، اس کے اثرات محسوس کریں گے ۔
سری نواس تھروودانتھی کہتے ہیں ’’مثال کے طور پر بھارت کو لیجیئے۔ اچھے سال میں یہ چینی بر آمد کرتا ہے۔ لیکن اگر فصل خراب ہو تو اسے چینی در آمد کرنی پڑتی ہے کیوں کہ اگرچہ یہ دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ چینی بنانے والا ملک ہے، لیکن اس کا شمار چینی استعمال کرنے والے سب سےبڑے ملکوں میں ہوتا ہے ۔ لیکن ٹھیک اس سال جب اسے چینی درآمد کرنی پڑ رہی ہے، عالمی منڈی میں حالات سازگار نہیں ہیں، اور اس سے صارفین کے لیے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔‘‘
دنیا کے بہت سے علاقوں میں اقتصادی اور سیاسی عدم استحکام سے مسئلہ اور زیادہ سنگین ہو جائے گا ۔ امریکہ کے زرعی پیداوار والے خطے میں اگر بارش نہ ہوئی، یا گرمی سے نجات نہ ملی، تو تھروودانتھی کے خیال میں ، بعض ملکوں میں غذا کی قلت ہو سکتی ہے، ممکن ہے ان ملکوں میں راشننگ کرنی پڑے بلکہ بھوک کا مسئلہ پیدا ہو جائے ۔ یہ وہ ملک ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ غذائی اشیاء بر آمد کرنے والے ملکوں کی طرف سے کثیر مقدار میں غذا کی فراہمی پر انحصار کرتے ہیں ۔