شمالی عراق میں امریکی فوجی مشیر تعینات

(فائل فوٹو)

امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے زور دے کر کہا ہے کہ یہ تعیناتی عراقی سکیورٹی فورسز کو مشاورت فراہم کرنے تک محدود ہوگی۔

امریکہ نے عراق کے شمالی حصے میں اپنے 130 فوجی مشیر بھیجے ہیں جس کا مقصد سنی شدت پسندوں کی وجہ سے جبل سنجار میں پھنسے لوگوں کی معاونت کی راہ تلاش کرنے میں مدد دینا ہے۔

امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے زور دے کر کہا ہے کہ یہ تعیناتی عراقی سکیورٹی فورسز کو مشاورت فراہم کرنے تک محدود ہوگی۔

"جیسا کہ صدر (اوباما) واضح طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم عراق میں واپس نہیں آرہے ایسی کسی بھی صورت میں جس میں ہم کبھی عراق میں تھے۔ یہ زمینی کارروائی میں ہمارے لڑاکا فوجی نہیں ہیں، ہم اس طرح کی کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔"

رواں سال جون میں پینٹاگون نے 300 فوجی مشیر بغداد بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔

ادھر امریکی فوجی طیارے جبل سنجار میں پھنسے لوگوں کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فضا سے گرا رہے ہیں۔

فوج کے مطابق منگل کو اس نے امداد کا چھٹا مرحلہ مکمل کیا جس کے بعد اب تک ایک لاکھ خوراک کے پیکٹ اور 27000 گیلن پانی فراہم کیا جا چکا ہے۔

کرد فورسز کی مدد سے گزشتہ چند روز میں 20 ہزار سے زائد مہاجرین جبل سنجار سے نکلنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

یورپ اُن ہزاروں عراقیوں کی امداد کے لیے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے، جو شمالی عراق میں دولت الاسلامیہ کے شدت پسندوں کے قتال سے بچ نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

برطانیہ اور فرانس نے منگل کے روز ’جبل سنجار‘ پر جہازوں سے پانی، کھانے اور شمسی توانائی پر چلنے والی لالٹین کے تھیلے گِرائے، تاکہ پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لینے والے یزیدی پناہ گزینوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کی امداد کی جاسکے۔

برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ شمالی عراق میں تقریباً 70 لاکھ ڈالر مالیت کی امدادی اشیاٴ روانہ کرے گا، جب کہ اصل زمینی حقائق کا جائزہ لینے میں مدد کے لیے برطانیہ نے ’ٹورنیڈو سرویلینس‘ طیارے تعینات کر دیے ہیں۔

سنی شدت پسندوں نے جون سے عراق کے شمالی حصے میں بہت سے علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا تھا۔

اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے یہاں آباد عیسائی اور یزیدی اقلیتوں کو اسلام قبول کرنے کا کہتے ہوئے انھیں ایسا نہ کرنے کی صورت میں قتل کرنے کی دھمکی بھی دے رکھی تھی۔

اس صورتحال میں ہزاروں کی تعداد میں اقلیتی برادری کے لوگ علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔