امریکی محکمہ خارجہ نے دنیا بھر کے ممالک میں انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق ایک جامع رپورٹ کانگریس میں پیش کر دی ہے جس میں کانگریس سے سفارش کی گئی ہے کہ امریکہ کی خارجہ اور تجارتی پالیسی بناتے وقت متعلقہ ممالک میں انسانی حقوق کی صورت حال کو سامنے رکھا جائے۔
یہ رپورٹ ہر سال تیار کی جاتی ہے اور یہ متعلقہ ممالک کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے امریکی پالیسی پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔
رپورٹ شہریوں کی آزادی و احترام، آزادئ اظہار، پرامن اجتماع کی آزادی، مذہبی آزادی، سیاسی عمل میں عام لوگوں کی شرکت، بدعنوانی، انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف حکومتوں کے اقدامات، نسلی اور مذہبی امتیاز، جبری مشقت اور انصاف کی فراہمی کی صورت حال کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہے۔
سن 2018 کے لئے تیار کی گئی یہ محکمہ خارجہ کی 43 ویں سالانہ رپورٹ ہے۔
پاکستان کے بارے میں امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ جولائی 2018 کے عام انتخابات اگرچہ ٹکنکی اعتبار سے پہلے سے بہتر رہے تاہم مبصرین، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے ملک کی فوج اور خفیہ اداروں کی طرف سے انتخابات سے قبل مداخلت کا الزام عائد کیا ہے جس کی وجہ سے انتخابات میں حصہ لینے والے تمام فریقین کے لئے مساوی مواقع موجود نہیں رہے۔ بعض سیاسی جماعتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انتخابات کے دن بھی انتخابی عمل میں بے قاعدگیاں دیکھی گئیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں فوج اور خفیہ ادارے سول انتظامیہ کی نگرانی میں کام نہیں کرتے۔
رپورٹ میں اس سال کے دوران پاکستان میں انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں ماورائے عدالت اور ہدف بنا کر قتل کرنے، جبری گمشدگیوں، ایذا رسانی، مقدمات کی سماعت شروع ہونے سے پہلے ملزمان کو حراست میں رکھنے، لوگوں کی نجی زندگیوں میں غیر قانونی مداخلت، سینسرشپ، صحافتی پابندیوں، لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی، مظاہروں میں سرکاری رکاوٹیں، مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور سرکاری محکموں میں بڑھتی ہوئی بدعنوانیوں کی خاص طور پر نشاندہی کی گئی۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غیر ریاستی عسکریت پسند گروپوں کی طرف سے کم عمر افراد کو بھرتی کرنے کے واقعات بھی رونما ہوئے اور عصمت دری کے واقعات کی تحقیقات میں بے قاعدگیاں بھی دیکھی گئیں، غیرت کے نام پر قتل اور چائلڈ لیبر کے واقعات بھی عام رہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان تمام معاملات میں حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی اور ایسے جرائم کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی۔ غیر ریاستی عناصر کی طرف سے دہشت گردی کے واقعات کے باعث انسانی حقوق بری طرح متاثر ہوئے۔
رپورٹ میں البتہ اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان کی فوج، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف کامیابی سے اقدامات جاری رکھے۔ تاہم عسکریت پسند تنظیموں اور دیگر غیر ریاستی تنظیموں کی طرف سے تشدد، مذہبی عدم برداشت اور زیادتیوں کے واقعات سے ملک میں بدامنی کی فضا پیدا ہوئی۔ پاکستان میں 23 دسمبر تک سال بھر میں دہشت گرد حملوں میں مرنے والوں کی تعداد 686 تک پہنچ گئی تھی۔ تاہم یہ تعداد ایک برس قبل 2017 میں دہشت گردی سے ہونے والی 1260 ہلاکتوں کے مقابلے میں خاصی کم رہی۔
بھارت کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ بھارت میں فوج مؤثر طور پر سول حکام کے زیر کنٹرول ہے۔ تاہم اس ملک میں بھی انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں ہوتی ہیں جن میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، تشدد کے واقعات، پولیس کی حراست میں خواتین کی عصمت دری، گرفتاریاں اور حراست، قید خانوں کی سخت اور خطرناک صورت حال اور مختلف ریاستوں میں سیاسی قیدیوں کے واقعات نمایاں رہے۔ اس کے علاوہ سینسرشپ اور سوشل میڈیا سائٹس کو بلاک کرنے کے اقدامات تشویش کا باعث رہے۔ بھارتی حکومت نے بعض غیر ملکی این جی اوز کی فنڈنگ پر یہ کہتے ہوئے پابندیاں عائد کر دیں کہ اُن کے اقدامات بھارت کے قومی مفاد کے منافی ہیں۔ ایسی این جی اوز کو یا تو کام کرنے سے روک دیا گیا یا اُن کی سرگرمیاں محدود کر دی گئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری سطح پر بدعنوانی کا کلچر فروغ پاتا رہا۔ عصمت دری، گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل اور جہیز کے حوالے سے قتل بھی بڑے مسئلے رہے۔ حکومت کی تمام سطحوں پر احتساب کے عمل کا فقدان رہا اور عدالتوں میں ججوں کی کمی اور زیر التوا کیسز کی بہتات کے باعث مجرموں کی بہت کم تعداد کو سزائیں دی جا سکیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ جموں و کشمیر، شمال مشرقی ریاستوں اور ماؤ نوازوں کے زیر اثر علاقوں میں باغیوں اور دہشت گردوں کی طرف سے زیادتیاں جاری رہیں جن میں پولیس، مسلح افواج اور سرکاری اہلکاروں کی ہلاکتیں ہوئیں۔
محکمہ خارجہ کی چین سے متعلق رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ چین میں سن 2018 کے دوران صوبہ شنکیانگ میں اقلیتی مسلمان یغور برادری کے لوگوں کی حراستوں اور اُن کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات شدت اختیار کر گئے۔ اس سلسلے میں یغور مسلمان، نسلی قازق افراد اور دیگر مسلمانوں کی 800,000 سے 20 لاکھ تک افراد کی گرفتاریوں کا حوالہ دیا گیا ہے جنہیں مبینہ طور پر اُن کی مذہبی اور نسلی شناخت ختم کرنے کے لئے حراستی کیمپوں میں رکھا گیا۔ رپورٹ کے مطابق چین کے سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ کیمپ دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہاپسندی کو روکنے کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔ تاہم بین الاقوامی میڈیا، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور ان کیمپوں میں زیر حراست افراد نے بتایا ہے کہ وہاں لوگوں کے ساتھ نہ صرف تشدد روا رکھا جاتا ہے بلکہ اُن میں سے کچھ کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں انسانی حقوق کے حوالے سے چین میں جس صورت حال کا ذکر کیا گیا ہے وہ مجموعی طور پاکستان اور بھارت میں جاری صورت حال سے بڑی حد تک مماثلت رکھتی ہے۔ ان میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، سرکاری اہلکاروں کی طرف سے شہریوں کے ساتھ تشدد اور زیادتیاں، جیلوں کی خطرناک صورت حال، شہریوں کی نجی زندگی میں مداخلت، صحافیوں، وکلاء، مصنفین، بلاگرز اور اُن کے افراد خانہ کے ساتھ زیادتیاں، سینسر شپ اور آزادئ اظہار پر پابندیاں خاص طور پر شامل ہیں۔