ڈیموکریٹک سینیٹر چک شومر کی طرف سے ایران کے جوہری معاہدے کی مخالفت سے اس معاہدے کو کانگریس سے منظور کرانے کی صدر اوباما کی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔
چک شومر نے جمعرات کی شام کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ ’’گہرے مطالعے، سوچ بچار اور اپنا ضمیر ٹٹولنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مجھے اس معاہدے کی مخالفت کرنی چاہیئے۔ میں اس معاہدے کو مسترد کرنے کی تحریک کے حق میں ووٹ دوں گا۔‘‘
نیویارک سے منتخب ہونے والے امریکہ کے اہم یہودی قانون ساز سینیٹر شومر کی طرف سے بیان جاری ہونے سے کچھ دیر قبل نیویارک ہی کے ایک اور بااثر یہودی ڈیموکریٹ نمائندے ایلیٹ اینگل نے بھی اس معاہدے کی مخالفت کا اعلان کیا تھا۔
اس بات کا امکان بڑھ رہا ہے کہ امریکی قانون ساز ستمبر میں گرمیوں کی چھٹیوں سے واپس آنے کے بعد ایران معاہدے کو مسترد کرنے کے لیے ایک قانون منظور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ صدر اوباما نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کو ویٹو کر دیں گے مگر اسے کامیاب بنانے کے لیے انہیں اپنے ڈیموکریٹ ساتھیوں کی مدد چاہیئے۔
ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان گزشتہ ماہ طے پانے والے جوہری معاہدے کے تحت ایران کو اپنا جوہری پروگرام محدود کرنا ہو گا اور عالمی معائنہ کاروں کو اپنی جوہری تنصیبات تک رسائی کی اجارت دینا ہو گی جس کے عوض اس پر عائد عالمی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔
پانچ صفحات پر مشتمل اپنے بیان میں شومر نے کہا کہ معائنے کا نظام ناکافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کسی بھی وقت، کہیں بھی معائنے پر اتفاق نہیں کیا گیا۔ معائنہ میں 24 گھنٹے کی تاخیر پریشان کن ہے۔‘‘
شومر نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد حاصل ہونے والی آمدن سے ایران کو مشرق وسطیٰ میں شدت پسند گروپوں کی مالی معاونت کرنے مدد ملے گی، جس سے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہو گا۔
صدر اوباما نے بدھ کو اپنے خطاب میں یہ کہہ کر معاہدے کا دفاع کیا تھا کہ یہ ’’ایٹمی بم بنانے کے تمام راستے بند کرتا ہے‘‘ اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی ایک اور جنگ کو روکنے میں معاون ثابت ہو گا۔
وائٹ ہاؤس نے شومر کے بیان پر ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ کانگریس کے کتنے ڈیموکریٹک ارکان شومر کی تقلید کرتے ہوئے کھلے عام اس معاہدے کی مخالفت کریں گے۔
اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور متعدد طاقتور اسرائیل نواز گروپ امریکی قانون سازوں پر سخت دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اس معاہدے کو مسترد کر دیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ اس معاہدے سے اسرائیل اور مغربی ممالک کی سلامتی کمزور ہو گی۔
کانگریس کے ارکان ستمبر میں چھٹیوں سے واپس آئیں گے۔ جوہری معاہدے پر 17 ستمبر تک رائے شماری کرنا لازمی ہے۔