امریکہ:سلامتی کونسل کی غزہ جنگ بندی قرارداد ویٹو کرنےکے فیصلےکا دفاع

اقوام متحدہ میں امریکہ کے متبادل سفیر رابرٹ ووڈ , 20 نومبر 2024 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران غزہ میں جنگ بندی کے مطالبے کی قرارداد کے مسودے کو ویٹو کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے ہوئے۔فوٹو

  • قرار داد میں 13 ماہ سے جاری لڑائی میں "فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی" کا مطالبہ کیا گیا تھا جبکہ یرغمالیوں کی رہائی کا الگ سے مطالبہ کیا گیا تھا۔
  • کونسل کے ممبروں نے دس منتخب ارکان کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد کو روکنے پر امریکہ پر شدید تنقید کی۔
  • واشنگٹن نے واضح کر دیا ہے کہ وہ صرف اس قرارداد کی حمایت کرے گا جس میں واضح طور پر جنگ بندی کے حصے کے طور پر یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ شامل ہو گا۔

امریکی محکمہ خارجہ نے بدھ کو غزہ جنگ بندی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تازہ ترین قرارداد کے خلاف امریکہ کے ویٹو کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی قرارداد میں یرغمالوں کی فوری رہائی کا مطالبہ شامل ہو نا چاہئے۔

اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب سفیر رابرٹ ووڈ نے کہا کہ واشنگٹن نے واضح کر دیا ہے کہ وہ صرف اس قرارداد کی حمایت کرے گا جس میں واضح طور پر جنگ بندی کے حصے کے طور پر یرغمالوں کی فوری رہائی کا مطالبہ شامل ہو گا۔

اس سے قبل عالمی ادارے کی 15 رکنی کونسل نے 10 غیر مستقل ارکان کی طرف سے پیش کردہ ایک قرارداد پر ووٹ دیا تھا۔

قرار داد میں 13 ماہ سے جاری لڑائی میں "فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی" کا مطالبہ کیا گیا تھا جبکہ یرغمالیوں کی رہائی کا الگ سے مطالبہ کیا گیا تھا۔

کونسل کے اراکین نے دس منتخب اراکین: الجزائر، ایکواڈور، گیانا، جاپان، مالٹا، موزمبیق، جنوبی کوریا، سیرا لیون، سلووینیا اور سوئٹزرلینڈ کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد کو روکنے پر امریکہ پر شدید تنقید کی۔

واضح رہے کہ صرف امریکہ نے مستقل رکن کی حیثیت سے اس قرارداد کی مخالفت کی تھی۔

SEE ALSO: اسرائیل اور لبنان اقوامِ متحدہ کی قرارداد پر پیش رفت  کر رہے ہیں: بلنکن

اس موقع پر فرانس کے سفیر نکولس ڈی ریویر نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے مسترد کردہ قرارداد میں یرغمالیوں کی رہائی کا "پر زور" تقاضا کیا گیا ہے۔

اسرائیل کے اقوام متحدہ میں سفیر ڈینی ڈینن نے ووٹنگ سے قبل قرارداد کے متن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ متن امن کے لیے قرارداد نہیں ہے بلکہ حماس کی "خوشی کی قرارداد" ہے۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے، جو اگلے سال 20 جنوری کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں، اسرائیل کی مضبوط سفارتی حمایت کی ہے۔

انہوں نے گزشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کے حملے سے چھڑنے والی جنگ کے لیے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔

بائیڈن نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ کرنے کی ناکام کوشش بھی کی ہے جس کے تحت یرغمالوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل کی قید سے فلسطینیوں کو رہا کرنا بھی شامل تھا۔

واشنگٹن نے رواں سال مارچ میں اس قرارداد پر ووٹنگ سے گریز کیا تھا جس سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کو منظور ہوئی تھی جبکہ اس سے قبل واشنگٹن نے غزہ پر قراردادوں کو ویٹو کر دیا تھا۔

SEE ALSO: غزہ میں صورتِ حال اتنی خراب ہے کہ تصور نہیں کیا جا سکتا، برطانوی وزیر خارجہ

سلامتی کونسل میں غزہ کے بحران پر بحث

اس سے قبل اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان نے پیر 18 نومبر کو غزہ کے لوگوں کے لیے امداد میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ فلسطینی علاقے میں صورتِ حال بد تر ہوتی جا رہی ہے۔

برطانوی وزیرِ خارجہ ڈیوڈ لیمی نے سلامتی کونسل میں کہا کہ غزہ کے لیے امداد میں بہت زیادہ اضافے کی ضرورت ہے۔ وہاں 23 لاکھ لوگوں میں سے اکثریت بے گھر ہو چکی ہے۔اور وہاں صحت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں 43,922 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

لیمی نے کہا، صورتِ حال تباہ کن ہے۔ اتنی خراب کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور یہ بہتر ہونے کے بجائے دن بدن بد تر ہوتی جا رہی ہے۔

امریکی سفیر لنڈا تحامس گرین۔۔فوٹو رائٹرز

اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ واشنگٹن فلسطینیوں کے لیے حالات کو بہتر بنانے کی اسرائیلی کوششوں کا قریب سے جائزہ لے رہا ہے اور ہر روز اسرائیلی حکومت سے بات ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، "اسرائیل کو فوری طور پر غزہ میں انسانی زندگی کی تباہ حال صورت ختم کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہئیں۔"

اسی مہینے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اسرائیل اس وقت غزہ کے لیے امداد روکنے کی کوشش نہیں کر رہا اور یوں کسی امریکی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب بھی نہیں ہو رہا۔ تاہم واشنگٹن نے تسلیم کیا تھا کہ غزہ کی صرتِ حال مسلسل بدتر ہے۔

گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر حملہ کر کے 1200 افراد کو ہلاک کر دیا تھا اور 250 کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اسکے نتیجے میں غزہ جنگ کا آغاز ہوا تھاجس نے اس پورے علاقے کو شدید بحران سے دوچار کر دیا ہے۔

(اس خبر میں شامل معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)