امریکہ میں ایک سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی پولیس کی حراست میں موت پر پورے ملک میں احتجاج جاری ہے اور متعدد مقامات پر مظاہروں نے پرتشدد شکل اختیار کرلی ہے۔
بہت سے شہروں میں کرفیو کا نفاذ کردیا گیا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور نیشنل گارڈز کی تعیناتی کی گئی ہے۔ اس کے باوجود لوگوں کی برہمی بظاہر اپنی جگہ قائم ہے اور وہ انصاف اور نسلی مساوات کے لئے اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
یہ مظاہرے ایسے وقت شروع ہوئے ہیں جب پورا ملک پہلے ہی کرونا وائرس کی وبا سے نبرد آزما ہے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اقتصادی دباؤ اور بیروزگاری کی لپیٹ میں ہے۔
گرچہ کئی مقامات پر بندشوں میں اب دھیرے دھیرے نرمی کی جا رہی ہے، ریاستی گورنروں نے قانون سازوں کو بتایا ہے کہ معمول کی سرگرمیوں کو بحال کرنے کا پہلا مرحلہ ٹھیک جا رہا ہے۔ تاہم، اب بھی مزید وسائل درکار ہیں۔
وائس آف امریکہ کی نامہ گار کیتھرین جیپسن نے اپنی رپورٹ میں اس جانب توجہ دلائی ہے کہ مظاہروں میں شریک لوگ ہزاروں کی تعداد میں ایک دوسرے کے قریب جمع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ اس سے کرونا وائرس کی دوسری لہر جنم لے سکتی ہے۔
وائٹ ہاوس میں کرونا وائرس ٹاسک فورس کی سربراہ ڈاکٹر ڈیبورا برکس کا خیال ہے کہ وسیع بنیاد پر ٹیسٹ سے وائرس کے پھیلاؤ سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ میں کرونا وائرس سے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگ موت کا شکار ہوچکے ہیں۔
ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسی دوران مظاہروں کی گونج میں نومبر کے صدارتی انتخاب کے سلسلے میں آٹھ ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی میں ووٹرز نے پرائمری الیکشن میں منگل کے دن اپنا ووٹ ڈالا۔
اس کے ساتھ ہی گورنر حضرات اس بات کا مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ انھیں بتایا جائے کہ ان کی ریاست کو کتنے وسائل مہیا کئے جائیں گے، اس لئے کہ پیشگی منصوبہ بندی کے لئے یہ بہت ضروری ہے۔ کولوراڈو کے گورنر جیرڈ پولس کا کہنا ہے کہ اس صورت میں ریاستوں کو اندازہ ہوسکے گا کہ وفاق کے علاوہ انھیں اپنی جانب سے کتنا حصہ ڈالنا ہوگا۔
مقامی لیڈروں سمیت بعض ریاستوں کے قائدین اس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اگر کرونا وائرس نے، جیسا کہ اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے، موسم خزاں میں پلٹا کھایا تو پھر موجودہ حکمت عملی سے ہٹ کر کوئی متبادل طریقہ اختیار کرنا پڑسکتا ہے اور شائد بندش سے ہٹ کر کسی اقدام کی ضرورت ہو۔
ماہرین اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ بندشوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر اقتصادی سرگرمیوں میں روک لگ جانے سے پہلے ہی چار کروڑ سے زیادہ لوگ بیروزگاری کا شکار ہوچکے ہیں اور کانگریس میں ڈیموکرٹیک ارکان کا کہنا ہےکہ تین ٹریلین ڈالر کی امدادی رقم ناکافی ہے۔ سینیٹ میں اقلیتی لیڈر چک شومر کا کہنا ہے کہ ہمیں ایک بڑے اور جرات مندانہ بل کی ضرورت ہے۔ ریپبلکنز اس معاملے میں توقف کی وکالت کرتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق، اس وقت امریکہ کو گویا تین اطراف سے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایک طرف کرونا کی ہولناک وبا ہے تو دوسری جانب درجنوں ریاستیں مظاہروں کی لپیٹ میں ہیں اور پھر نومبر کے انتخابات کے پس منظر میں سیاسی اتھل پتھل الگ جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک اس وقت اپنی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔