بن غازی واقعے کی کوئی پیشگی اطلاع موجود نہیں تھی: پنیٹا

بد قسمتی سے بن غازی کی امریکی تنصیب کو کسی لاحق خطرے کےبارے میں قبل از وقت کوئی ایسی مخصوص خفیہ رپورٹ یا عندیہ نہیں ملا: وزیر دفاع
سبک دوش ہونے والے امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ لیبیا کے شہر بن غازی کی امریکی تنصیبات پر دہشت گرد حملے کے بارے میں اُنھیں کوئی پیشگی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی، جس میں چار امریکی ہلاک ہوئے۔

پنیٹا نےجمعرات کے روز دفاع سےمتعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ 11ستمبر 2012ء کو اِس حملے سے ایک روز قبل قاہرہ اور دیگر مقامات پر امریکی تنصیبات کے خلاف ہونے والے ممکنہ خطرات سے متعلق رپورٹیں ملی تھیں۔

اُن کے بقول، بد قسمتی سے بن غازی کی امریکی تنصیب کو لاحق کسی خطرے کےبارے میں قبل از وقت کوئی ایسی مخصوص خفیہ رپورٹ یا عندیہ نہیں ملا۔ ’صاف گوئی سے یوں کہا جائے کہ کسی ممکنہ انتباہ کی غیر موجودگی میں اتنا وقت میسر نہیں آیا کہ رونما ہونے والے حملے سے بروقت نبردآزما ہونے کے لیے اپنے فوجی اثاثوں کو استعمال میں لاکر اِس کا مؤثر جواب دیا جاتا۔

امریکی سفارتی احاطے اور ملحقہ جگہ پر ہونے والے اِن حملوں میں امریکی سفیر کرسٹوفر اسٹیونز اور تین دیگر اہل کار ہلاک ہوئے۔

پنیٹا نے کہا کہ اس کا فوری جواب یہ ہوسکتا تھا کہ گھنٹوں کے اندر اندر طرابلس میں موجود سکیورٹی ٹیم کو طلب کیا جاتا۔

لیکن، اُنھوں نے کہا کہ حالات پر کنٹرول کے لیے مسلح افواج کے اثاثوں کو طلب کرنے کے لیے درکار وقت موجود نہیں تھا، جس بات پر سینیٹر جان مک کین اور دیگر سینیٹروں نے نقطہ اعتراض بلند کیا۔

ریپبلیکن پارٹی کے پینل میں موجود چوٹی کے ارکان سے تعلق رکھنے والے، سینیٹر جیمز انہوف نے تنقید کی کہ اوباما انتظامیہ نے ابتدا میں ہی یہ کہہ دیا تھا کہ تشدد کا یہ مہلک واقع امریکہ کے خلاف ہونے والےاحتجاجی مظاہروں کا نتیجہ تھا۔

اُن کے بقول، بڑا مسئلہ یہ ہے کہ واقع کی پردہ پوشی کی گئی اور اب کوئی اس کا ذکر تک نہیں کرتا، اور یہی ایک المیہ ہے۔