پاکستان جنید حفیظ کی اپیل پر شفافیت کو یقینی بنائے: امریکہ

فائل فوٹو

امریکہ کے محکمہ خارجہ نے پاکستان کی ایک عدالت کی طرف سے پروفیسر جنید حفیظ کو توہین مذہب کے مقدمے میں سزائے موت دیے جانے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

امریکہ کے سفیر برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی سیم براؤن بیک نے ٹوئٹ میں کہا کہ جنید حفیظ کو سات سال تک قید تنہائی میں رکھا گیا۔ لہذٰا، حکومت پاکستان جنید حفیظ کی سزا کے خلاف اپیل میں شفافیت کو ملحوظ خاطر رکھے اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اقدامات کرے۔

ملتان کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جنید حفیظ کو ہفتے کو ملتان کی ایک عدالت نے توہین مذہب کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی تھی۔ جنید حفیظ کو توہین مذہب کی دفعہ 295 بی کے تحت عمر قید اور دفعہ 295 اے کے تحت 10 سال قید اور پانچ لاکھ جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سزائیں بیک وقت شروع ہوں گی جبکہ عمر قید اور دیگر سزائیں پوری ہونے پر انہیں پھانسی دی جائے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے ادارے 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' (ایچ آر سی پی) ایک بیان میں ان خدشات کا اظہار کر چکا ہے کہ خوف اور دہشت کی فضا میں جنید حفیظ کا شفاف ٹرائل مشکل ہے۔ البتہ، کمیشن نے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ اعلٰی عدالتیں جنید حفیظ کو انصاف دیں گی۔

سماجی انصاف کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے سنٹر فار سوشل جسٹس کے مطابق، 1987 سے 2017 کے دوران 1549 افراد کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمات درج کیے گئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

رپورٹ کے مطابق، اس عرصے کے دوران 75 افراد کو توہین مذہب کے مبینہ الزمات کے بعد مشتعل افراد نے قتل کر دیا۔ لہذٰا، ایسے واقعات میں ملزم کے لیے قانونی خدمات کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے۔

ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ توہین مذہب کے الزامات بعض اوقات ذاتی رنجش اور عناد پر عائد کیے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کے بقول، اعلیٰ عدلیہ اس مقدمات میں ذیلی عدالتوں کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتی رہی ہے۔

پاکستان میں اس سے قبل بھی توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت سنائی جاتی رہی ہے۔ البتہ، اعلٰی عدلیہ کے احکامات پر ان پر عمل درآمد روکا جاتا رہا ہے۔ اور اس ضمن میں متعدد درخواستیں عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

جنید حفیظ پر الزام کیا تھا؟

مارچ 2013 میں جنيد حفيظ کو توہينِ مذہب کے الزام ميں لاہور سے گرفتار کيا گيا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز پوسٹ کی تھی۔

جنید حفیظ پر ملتان میں توہینِ مذہب کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

جنيد حفيظ کے وکيل اسد جمال کے مطابق، ان کے موکل پر توہين مذہب کا الزام لگانا ان کے خلاف سازش تھی۔ ادھر، ایف آئی آر میں جنید حفیظ پر یہ الزام ہے کہ کسی اور کی جانب سے لگائی گئی پوسٹ کو انہوں نے اپنی پروفائل سے حذف نہیں کیا تھا۔

جنید حفیظ کا کیس لڑنے پر ان کے وکلا کو ہراساں کیے جانے کی شکایات بھی منظرِ عام پر آتی رہی ہیں۔

جنید حفیظ کے ایک وکیل راشد رحمان کو مئی 2014 میں نامعلوم افراد نے ان کے دفتر میں گھس کر قتل کر دیا تھا۔

جنید حفیظ کے والد حفیظ النصیر نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کے نام خط میں جنید کی رہائی کی اپیل کی تھی۔

امریکی حکام اس سے قبل بھی جنید حفیظ کی رہائی کے لیے پاکستان پر زور دیتے رہے ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کیس میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو بھی 2010 میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ نے سزائے موت کو برقرار رکھا تھا۔

اس کے بعد یہ معاملہ عالمی سطح پر شہ سرخیوں میں شامل رہا تھا۔ آسیہ بی بی کا ساتھ دینے اور پاکستان میں توہین مذہب سے متعلق قوانین کے بڑے ناقد سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اس پاداش میں جنوری 2011 میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔

سلمان تاثیر کو ان کے محافظ ممتاز قادری نے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ البتہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے عدم شواہد کی بنا پر آسیہ بی بی کو بری کر دیا تھا۔

آسیہ بی بی بعد ازاں کینیڈا منتقل ہو گئی تھیں۔