لاس انجیلیس کاؤنٹی میں چینی طالب علموں کی تعداد 4000 ہے۔
لاس اینجلیس —
امریکہ کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے چینی طالب علموں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ دو برسوں میں ان کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔
اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ اس رجحان کی بڑی وجہ یہ ہے کہ چین میں متوسط طبقے کے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لاس انجیلیس کاؤنٹی میں چینی طالب علموں کی تعداد 4000 ہے۔
یونیورسٹی آف سدرن کیلے فورنیا میں چینی طالب علموں کو تلاش کرنا مشکل نہیں۔
ماحولیاتی انجینیرنگ کے طالب علم سن ویئی کہتے ہیں کہ میں بہت کم امریکی طالب علموں سے ملا ہوں کیوں کہ یہاں اتنے سارے چینی طالب علم موجود ہیں۔ لیکن ان کے خیال میں اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔
‘‘اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب میں یہاں پہنچا تو مجھے یہاں کی زندگی کا عادی ہونے کے لیے کچھ نہیں کرنا پڑا۔ یہاں ہر طرف چینی موجود ہیں۔ لیکن بہت سے لوگوں کے لیے امریکہ آنا آسان نہیں۔’’
ان روپنگ کہتے ہیں کہ ان کے اور ان کی بیوی کے لیے اپنے گھرانے سے دور رہنا بڑا مشکل کام ہے۔
‘‘ہم دونوں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہیں اور جب والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں، تو اولاد کی اور اپنے پوتے کی غیر موجودگی انہیں بہت مشکل سے گزرتی ہے۔’’
لاس انجیلیس کاؤنٹی کی اکنامک ڈیولپمنٹ کور کے فرنینڈو گیررا کہتے ہیں کہ ‘‘گزشتہ عشرے میں امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے چینی طالب علموں کی تعداد تقریباً تین گنا ہو گئی ہے اور 1995ء سے اب تک یہ تعداد چار گنا ہو گئی ہے۔’’
بین الاقوامی ماہرِ معاشیات فرنیڈو گیررا کہتے ہیں کہ گذشتہ سال چینی طالب علموں نے لاس انجیلیس کاؤنٹی کی معیشت میں 10 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا اضافہ کیا۔ پورے امریکہ کی معیشت میں چینی طالب علموں نے چار اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کا اضافہ کیا ہے۔
جم ہوسیک جیسے ماہرِ معاشیات کہتے ہیں کہ امریکہ میں چینی طالب علموں کی تعداد میں زبردست اضافے کی وجہ چین کی اقتصادی ترقی ہے۔
چین میں آج کل بہت سے مختلف قسم کے کاروباری لوگ ہیں جن کے پاس بہت دولت ہے اور وہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو بیرونی ملکوں میں تعلیم کے لیے بھیج سکتے ہیں۔
لی جینگ چینی ہیں، انھوں نے یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا میں تعلیم کا مضمون پڑھا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ زیادہ دن کی بات نہیں، 2004ء تک چینی طالب علموں کو امریکی یونیورسٹیوں سے تعلیمی وظائف ملتے تھے۔
‘‘جو چینی طالب علم یہاں آتے تھے ان کی اکثریت کو وظیفے ملتے تھے۔ اب طالب علم یہاں آنے کے اخراجات خود ادا کرتے ہیں۔’’
یونیورسٹی آف کیلی فورنیز کے ڈین آف ریلیجس لائف، وارئن سونی کہتے ہیں کہ روایتی طور پر چینی طالب علم انجینیرنگ یا سائنس کے مضامین پڑھتے رہے ہیں۔ لیکن اب انھوں نے بزنس، تعلیم یا فلم کے مضامین لینے شروع کر دیے ہیں۔
‘‘میرے خیال میں اس نسل میں ہم جو نیا رجحان دیکھ رہےہیں وہ یہ ہے کہ طالب علم یہ سوچتے ہیں کہ وہ یہاں کیا پڑھیں جو چین واپس جانے کے بعد ان کے کام آئے۔ اب جو طالب علم آتے ہیں وہ یہاں مستقل رہنے کے بارے میں نہیں سوچتے، جیسا کہ پچھلی نسلوں کے طالب علم سوچتے تھے۔’’
اور بعض امریکیوں کے لیے یہ رجحان پریشان کن ہے، جم ہوسیک کہتے ہیں کہ ‘‘میرے خیال میں لوگوں کے ذہن میں جو پریشانی ہے وہ انسانی سرمایے کے باہر چلے جانے کے بارے میں ہے۔’’
لیکن پروفیسر اور اقتصادی ماہرین کہتے ہیں چینی طالب علموں کی موجودگی امریکہ کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ یونیورسٹی آف سدرن کیلے فورنیا کے وارئن سونی کہتے ہیں کہ ‘‘میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح ثقافتوں اور ملکوں میں ربط و ضبط بڑھتا ہے اور اس طرح اشتراکِ عمل، تعاون کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور ان پر عمل آسان ہو جاتا ہے۔’’
اس وقت تو ان طالب علموں کی تمام تر توجہ اپنے نئے ماحول سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور اپنی تعلیم پر ہے تا کہ ان کے والدین ان کی کارکردگی پر فخر محسوس کریں۔
اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ اس رجحان کی بڑی وجہ یہ ہے کہ چین میں متوسط طبقے کے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لاس انجیلیس کاؤنٹی میں چینی طالب علموں کی تعداد 4000 ہے۔
یونیورسٹی آف سدرن کیلے فورنیا میں چینی طالب علموں کو تلاش کرنا مشکل نہیں۔
ماحولیاتی انجینیرنگ کے طالب علم سن ویئی کہتے ہیں کہ میں بہت کم امریکی طالب علموں سے ملا ہوں کیوں کہ یہاں اتنے سارے چینی طالب علم موجود ہیں۔ لیکن ان کے خیال میں اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔
‘‘اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب میں یہاں پہنچا تو مجھے یہاں کی زندگی کا عادی ہونے کے لیے کچھ نہیں کرنا پڑا۔ یہاں ہر طرف چینی موجود ہیں۔ لیکن بہت سے لوگوں کے لیے امریکہ آنا آسان نہیں۔’’
ان روپنگ کہتے ہیں کہ ان کے اور ان کی بیوی کے لیے اپنے گھرانے سے دور رہنا بڑا مشکل کام ہے۔
‘‘ہم دونوں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہیں اور جب والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں، تو اولاد کی اور اپنے پوتے کی غیر موجودگی انہیں بہت مشکل سے گزرتی ہے۔’’
لاس انجیلیس کاؤنٹی کی اکنامک ڈیولپمنٹ کور کے فرنینڈو گیررا کہتے ہیں کہ ‘‘گزشتہ عشرے میں امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے چینی طالب علموں کی تعداد تقریباً تین گنا ہو گئی ہے اور 1995ء سے اب تک یہ تعداد چار گنا ہو گئی ہے۔’’
بین الاقوامی ماہرِ معاشیات فرنیڈو گیررا کہتے ہیں کہ گذشتہ سال چینی طالب علموں نے لاس انجیلیس کاؤنٹی کی معیشت میں 10 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا اضافہ کیا۔ پورے امریکہ کی معیشت میں چینی طالب علموں نے چار اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کا اضافہ کیا ہے۔
جم ہوسیک جیسے ماہرِ معاشیات کہتے ہیں کہ امریکہ میں چینی طالب علموں کی تعداد میں زبردست اضافے کی وجہ چین کی اقتصادی ترقی ہے۔
چین میں آج کل بہت سے مختلف قسم کے کاروباری لوگ ہیں جن کے پاس بہت دولت ہے اور وہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو بیرونی ملکوں میں تعلیم کے لیے بھیج سکتے ہیں۔
لی جینگ چینی ہیں، انھوں نے یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا میں تعلیم کا مضمون پڑھا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ زیادہ دن کی بات نہیں، 2004ء تک چینی طالب علموں کو امریکی یونیورسٹیوں سے تعلیمی وظائف ملتے تھے۔
‘‘جو چینی طالب علم یہاں آتے تھے ان کی اکثریت کو وظیفے ملتے تھے۔ اب طالب علم یہاں آنے کے اخراجات خود ادا کرتے ہیں۔’’
یونیورسٹی آف کیلی فورنیز کے ڈین آف ریلیجس لائف، وارئن سونی کہتے ہیں کہ روایتی طور پر چینی طالب علم انجینیرنگ یا سائنس کے مضامین پڑھتے رہے ہیں۔ لیکن اب انھوں نے بزنس، تعلیم یا فلم کے مضامین لینے شروع کر دیے ہیں۔
‘‘میرے خیال میں اس نسل میں ہم جو نیا رجحان دیکھ رہےہیں وہ یہ ہے کہ طالب علم یہ سوچتے ہیں کہ وہ یہاں کیا پڑھیں جو چین واپس جانے کے بعد ان کے کام آئے۔ اب جو طالب علم آتے ہیں وہ یہاں مستقل رہنے کے بارے میں نہیں سوچتے، جیسا کہ پچھلی نسلوں کے طالب علم سوچتے تھے۔’’
اور بعض امریکیوں کے لیے یہ رجحان پریشان کن ہے، جم ہوسیک کہتے ہیں کہ ‘‘میرے خیال میں لوگوں کے ذہن میں جو پریشانی ہے وہ انسانی سرمایے کے باہر چلے جانے کے بارے میں ہے۔’’
لیکن پروفیسر اور اقتصادی ماہرین کہتے ہیں چینی طالب علموں کی موجودگی امریکہ کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ یونیورسٹی آف سدرن کیلے فورنیا کے وارئن سونی کہتے ہیں کہ ‘‘میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح ثقافتوں اور ملکوں میں ربط و ضبط بڑھتا ہے اور اس طرح اشتراکِ عمل، تعاون کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور ان پر عمل آسان ہو جاتا ہے۔’’
اس وقت تو ان طالب علموں کی تمام تر توجہ اپنے نئے ماحول سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور اپنی تعلیم پر ہے تا کہ ان کے والدین ان کی کارکردگی پر فخر محسوس کریں۔