چین نے امریکی ایوانِ نمائندگان میں منظور کیے جانے والے اس بل پر شدید احتجاج کیا ہے جس کا مقصد بیجنگ کے خلاف اپنی کرنسی کی قدر جان بوجھ کر کم رکھنے اور تجارتی عدم توزان برقرار رکھنے جیسے اقدامات پر تادیبی کاروائی کو ممکن بنانا ہے۔
چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان جیانگ یو نے بل پہ تبصرہ کرتے ہوئے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات اٹھانے سے باز رہے جن سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات متاثر ہوں۔ اپنے ردِعمل میں ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکی ایوان میں منظورکیے جانےو الے بل کا مقصد کرنسی کے معاملے کی آڑ میں چینی برآمدات میں رکاوٹ ڈالنا ہے جس کی چینی حکومت سخت مخالفت کرتی ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان میں بدھ کے روز منظور کیے جانے والے بل کا مقصد چین اور دیگر ممالک کے خلاف اپنی کرنسی کی قدر جان بوجھ کر کم رکھنے پر تادیبی کارروائی کو ممکن بنانا ہے۔ تاہم بل کا بنیادی ہدف چین ہے جس کے بارے میں امریکہ اور کئی دیگر ممالک کی رائے ہے کہ وہ عالمی منڈی میں اپنی برآمدات کو غیر قانونی طور پر فائدہ پہنچانے کیلیے اپنی کرنسی کی قدر جان بوجھ کر کم رکھے ہوئے ہے۔
اپنے ردِعمل میں چینی ترجمان کا کہنا تھا کہ مذکورہ بل نہ صرف چین اور امریکہ کے باہمی تجارتی تعلقات کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے گا بلکہ اس سے دونوں ممالک اور پوری دنیا کی اقتصادیات بھی متاثر ہوگی۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا چین مذکورہ بل کے جواب میں امریکی برآمدات کے خلاف ایسا ہی کوئی قدم اٹھا نے کا ارادہ رکھتا ہے یا نہیں۔
کئی امریکی قانون سازو کاروباری شخصیات اور مزدور تنظیموں کا موقف ہے کہ جان بوجھ کر یوان کی قدر کم رکھنے کی چینی پالیسی کے باعث امریکہ کو دوطرفہ تجارت میں خسارے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جبکہ امریکی کانگریس کے مطابق بیجنگ کی اس حکمتِ عملی کی وجہ سے امریکہ میں پیداواری شعبے میں لاکھوں آسامیاں بھی متاثر ہورہی ہیں۔
بل کے ذریعے امریکی انتظامیہ کو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ان ممالک کی برآمدی اشیاء پر ٹیکس نافذ کرے جو مصنوعی طور پر اپنی کرنسی کی قدر کم رکھ کر عالمی منڈیوں میں اپنی مصنوعات کی کم قیمت میں فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بدھ کو ہونے والی رائے شماری میں ایوان نمائندگان کے 384 ارکان نے بل کے حق میں جب کہ 79 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ رواں سال نومبر تک مذکورہ بل امریکی سینیٹ کے سامنے پیش کردیا جائے گا جس کی منظوری کے بعد صدر بارک اوباما کے دستخط سے اسے قانون کی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔ تاہم امریکی میڈیا میں آنے والی رپورٹس کے مطابق امریکی وزارتِ تجارت کا کہنا ہے کہ مذکورہ بل ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اصولوں سے متصادم ہے۔
چین میں قائم امریکن چیمبر آف کامرس نے بھی بل کی مخالفت کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بل کے مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکیں گے۔
گروپ کے چیئرمین جان واٹکنز جونیئر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ بل کی منظوری کے بعد امریکی ملازمتوں میں کسی بڑے اضافے کا امکان نہیں۔ بلکہ ان کے مطابق اس طرح کی قانون سازی سے برآمدات میں کمی آئے گی جس سے ملازمتوں پہ منفی اثرات پڑنے کا اندیشہ ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بل کی منظوری سے نہ صرف امریکہ کے تجارتی خسارے میں مزید اضافہ ہوگا بلکہ یہ چین میں تیار ہونے والی کئی مصنوعات کی پیداوار دیگر ممالک میں منتقلی کا سبب بن کر دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافہ کرے گا۔