امریکہ اور چین کے درمیان تجارت اور کرنسی پر مذاکرات

امریکہ اور چین کے درمیان اعلیٰ سطح کی سالانہ سٹریٹجک اور اقتصادی مکالمے کی میٹنگ بیجنگ میں پیر کے روز شروع ہوگی۔ ان مذاکرات کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور کرنسی کے بارے میں اختلافات اور کشیدگی کو کم کرنا ہے۔

اس مکالمے کی صدارت مشترکہ طور پرسٹیٹ کونسلر ڈائی بِنگو اور نائب وزیرِ اعظم وانگ قشن کریں گے۔ امریکہ کی نمائندگی وزیرِ خزانہ ٹموتھی گائٹنراور وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن کریں گی۔ اوباما انتظامیہ کے تحت اس میٹنگ کا پہلا دورگذشتہ سال واشنگٹن میں ہوا تھا اور اس کا مقصد مفاہمت کو تقویت دینا، باہم اعتماد میں اضافہ کرنا اور تعاون کو بڑھانا تھا۔

جو مسائل زیرِ بحث آئیں گے وہ وسیع اور پیچیدہ ہیں۔ وان منگ ورجینیا کی جارج میسن یونیورسٹی میں گورنمنٹ اور سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں یہ سوچتے وقت کہ اس قسم کی سیاسی میٹنگ میں کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے، حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیئے‘‘ ۔

عالمی اقتصادی بحران اور کسی حد تک بحالی کی سست رفتار کی وجہ سے امریکہ اور چین کے درمیان مذاکرات متاثر ہوں گے۔ پروفیسروان کہتے ہیں کہ اگرچہ امریکی ٹیم اپنے موقف کوزور دار انداز میں پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی، لیکن چین یہ بات سمجھتا ہے کہ اس کا واسطہ اس ملک سے ہے جو اس کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے ۔

ان کے مطابق جہاں تک چینیوں کا تعلق ہے، تو ہمیں یہ بھی نظر آرہا ہے کہ چین کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے کیوں کہ عالمی اقتصادی کساد بازاری کے زمانے میں چین کی کارکردگی اچھی رہی بلکہ کچھ بہتر ہو گئی اور چینی حکومت پر بہت زیادہ دباؤ ہے کہ وہ امریکہ کی طرف سے ڈالے جانے والے دباؤ کو خاطر میں نہ لائے۔

جیمز ڈورن واشنگٹن میں کیٹو انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چین کی بہتر مالی حالت کی وجہ سے امکان یہی ہے کہ چینی کرنسی کی قدرمیں اصلاحات کے مطالبات سست پڑ جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ’’اقتصادی حالات میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ اب چین مغربی ملکوں کا محتاج نہیں رہا۔ وہ خود کو ایسا ملک سمجھتا ہے جس کی طاقت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اور وہ مسلسل امریکہ کو مشورے دیتا رہا ہے کہ وہ اپنے مالیاتی معاملات اور ٹیکسوں کی پالیسیوں کو ٹھیک کرے، اس سے پہلے کہ وہ چین کو یہ بتائے کہ اسے اپنی کرنسی کے سلسلے مِیں کیا کرنا ہے‘‘ ۔

امریکی صدر براک اوباما پر کانگریس کی طرف سے دباؤ رہا ہے کہ وہ چین کوایسا ملک قرار دے دیں جو اپنی کرنسی کی قدرمیں ہیر پھیر سے کام لیتا رہا ہے۔ چین نے اس الزام سے انکار کیا ہے اور انتباہ کیا ہے کہ اس قسم کے اقدامات سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کی طرف سے تجارت پر پابندیوں کے اقدامات سے تعلقات میں کشیدگی بڑھی ہے۔ لیکن جیمز ڈورن کہتے ہیں کہ اگر دونوں ملک محتاط رہیں اورمعاملات کو شفاف رکھیں تو اس سے طویل مدت تعلقات کے لیے مثبت فضا قائم ہو سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ’’اگر ہم چین کے ساتھ تعلقات ہمواررکھیں، اور تجارت کو آزاد رکھیں، تو ہم اپنے مسائل کو پُر امن طریقے سے حل کر سکتے ہیں اور اس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو گا۔ چین اب بھی ہماری بر آمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے، یا ایسا ملک ہے جہاں ہماری بر آمدات میں سب سے زیادہ تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمیں محتاط رہنا چاہیئے کہ ہمارے تعلقات اتنے خراب نہ ہو جائیں کہ ہم چین میں یا امریکہ میں خصوصی مفادات رکھنے والوں کے زیرِ اثر آ کر تجارت پر تباہ کن پابندیاں لگانا شروع کر دیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ملک اس بات پر متفق ہو سکتےہیں‘‘۔

پروفیسر وان منگ کہتے ہیں کہ تجارت سے ہٹ کر، امریکہ اور چین کو بہت سے دوسرے شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطے قائم کرنے پڑیں گے اور اس کے ساتھ ہی یہ احتیاط بھی کرنا پڑے گی کہ باقی دنیا کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ’’اگر وہ واقعی اسٹریٹجک معاملات پر بات چیت کرنا چاہتےہیں تو انہیں بہت سے دوسرے مسائل کے بارے میں بھی بات کرنی ہوگی۔ ان میں توانائی، افریقہ اور دوسرے شعبے شامل ہیں۔ لیکن ان کے لیے ان معاملات پر گفتگو کرنا بہت مشکل ہوگا اور اس کی ایک وجہ یہ ہوگی کہ اس طرح یہ تاثر پیدا ہوگا گویا ان دونوں ملکوں کا گروپ ہی ساری دنیا کو چلا رہا ہے‘‘ ۔

مسائل تو بہت سے ہیں اور اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے لیے صرف دو دن ہوں گے۔ پروفیسر وان انتباہ کرتےہیں کہ اس میٹنگ کے نتیجے میں بڑے بڑے اعلانات کی توقع نہیں کرنی چاہیئے۔ ان کے مطابق’’شاید ان میٹنگوں کے نتیجے میں کسی ٹھوس نتائج کی توقع تو نہیں کرنی چاہیئے۔ لیکن بات چیت کرنے سے ہمیشہ مدد ضرورملتی ہے‘‘۔

بیجنگ میں مذاکرات کا نتیجہ کچھ ہی کیوں نہ نکلے، منگل کو ایک مشترکہ بیان ضرور جاری کیا جائے گا۔