امریکی حکام نے چین کی معروف ٹیکنالوجی کمپنی 'ہواوے' پر امریکی کمپنیوں کے راز چرانے اور ایران پر عائد امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کرتے ہوئے اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا ہے۔
سرکاری وکلا نے پیر کو نیویارک کی ایک وفاقی عدالت میں 'ہواوے'، کمپنی کی ایک اعلیٰ افسر اور اس کی ذیلی کمپنیوں کے خلاف فردِ جرم پیش کی ہے جن میں ان پر 13 الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کی درخواست کی گئی ہے۔
فردِ جرم میں 'ہواوے' کی چیف فنانشل افسروان زو مینگ اور 'ہواوے' کی دو ذیلی کمپنیوں پر امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران کے ساتھ تجارت کرنے کے الزامات بھی شامل ہیں۔
فردِ جرم میں کہا گیا ہے کہ وان زو مینگ اور 'ہواوے' کے کئی دیگر ملازمین نے کمپنی کی ایران میں تجارتی سرگرمیوں کے بارے میں کئی بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور امریکی حکومت کو دھوکے میں رکھا۔
فردِ جرم میں امریکی استغاثہ نے دعویٰ کیا ہے کہ 'ہواوے' نے ایک سازش کے تحت ایران میں 'اسکائی کام ٹیک کمپنی لمیٹڈ' کے نام سے اپنی تجارتی سرگرمیاں انجام دیں اور امریکی حکومت اور دیگر مالیاتی اداروں سے اس بارے میں جھوٹ بولا کہ یہ کمپنی ایران میں محض اس کی بزنس پارٹنر ہے۔
واضح رہے کہ وان زو مینگ 'ہواوے' کے بانی کی صاحبزادی ہیں اور 'اسکائی کوم' کے بورڈ کی بھی رکن رہ چکی ہیں۔ انہیں گزشتہ سال دسمبر میں امریکی حکام کی درخواست پر کینیڈا کی حکومت نے گرفتار کرلیا تھا۔
ان کی گرفتاری پر چین نے سخت برہمی کا اظہار کیا تھا اور اس واقعے کے بعد چین اور امریکہ کے درمیان جاری تجارتی تنازع مزید سنگین ہونے کے خدشات بڑھ گئے تھے۔
امریکی حکام نے کہا ہے کہ وہ کینیڈا کی حکومت سے وان زو مینگ کو امریکہ کے حوالے کرنے کی درخواست کریں گے۔
امریکہ کے پاس ملزمہ کی حوالگی کی باضابطہ درخواست کرنے کے لیے بدھ تک کا وقت ہے اور امریکہ کے عبوری اٹارنی جنرل میٹ وٹیکر نے کہا ہے کہ ملزمہ کو امریکہ لا کر ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔
امریکی حکومت کے وکلا نے پیر کو ریاست واشنگٹن کی ایک عدالت میں 'ہواوے' کے خلاف 10 الزامات پر مشتمل ایک اور فردِ جرم بھی دائر کی ہے۔
اس فردِ جرم میں 'ہواوے' اور امریکہ میں اس کی ذیلی کمپنی 'ہواوے ڈیوائسز' پر امریکی ٹیلی کام کمپنی 'ٹی موبائل' کے تجارتی راز چرانے کا الزام لگایا گیا ہے۔
'ہواوے' کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا باقاعدہ اعلان پیر کو عبوری اٹارنی جنرل میٹ وٹیکر نے ایک پریس کانفرنس میں کیا۔
پریس کانفرنس میں ان کے ہمراہ امریکہ کے وفاقی تحقیقات ادارے 'ایف بی آئی' کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے، وزیرِ تجارت ولبر روس اور داخلی سلامتی کے وزیر کرسجن نیلسن بھی موجود تھے۔
تاہم اس پریس کانفرنس میں امریکی حکام نے 'ہواوے' کی مبینہ خلافِ قانون سرگرمیوں پر چین کی حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹہرایا۔
'ہواوے' کی انتظامیہ نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ اسے امریکی حکام کے الزامات پر مایوسی ہوئی ہے۔
کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے امریکی حکام سے ان کے تحفظات دور کرنے کے لیے بات چیت کی کوشش کی تھی لیکن اس کی بات چیت کی پیش کش بغیر کوئی وجہ بتائے مسترد کردی گئی تھی۔
'ہواوے' چین کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ہے جو موبائل فونز کے علاوہ سوئچز، راؤٹرز، بیس اسٹیشنز سمیت ٹیکنالوجی کے کئی آلات بناتی ہے۔
کمپنی کی لگ بھگ نصف آمدنی اس کی مصنوعات کی چین سے باہر فروخت سے حاصل ہوتی ہے اور خدشہ ہے کہ امریکی حکام کی کارروائی کے نتیجے میں 'ہواوے' کا بین الاقوامی کاروبار متاثر ہوگا۔