نیویارک کی عدالت میں سابق طالبان کمانڈر پر اغوا اور قتل کے الزام عائد

غزنی، افغانستان، 24 جون 2008۔ (فائل فوٹو)

نیو یارک کی ایک وفاقی عدالت میں استغاثہ نے جمعرات کے دن ایک سابق طالبان کمانڈر کے خلاف فرد جرم عائد کی ہے، جن پر الزام ہے کہ انھوں نے 2008ء میں دہشت گردی کے مبینہ جرائم میں حصہ لیا، جن کے نتیجے میں امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔

45 سالہ حاجی نجیب اللہ امریکی تحویل میں ہے، ان پر ایک امریکی صحافی اور دو افغان سویلینز کے اغوا کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ انھیں گرفتار کیا گیا اور اکتوبر 2020ء میں یوکرین میں امریکی تحویل میں دیا گیا تھا۔

جمعرات کے روز نیویارک کے وکلائے استغاثہ نے بتایا کہ انھوں نے حتمی فرد جرم دائر کی ہے، جس میں ان پر لگنے والے الزامات میں قتل کے دو الزامات کا اضافہ کیا گیا ہے۔

امریکی محکمہ انصاف نے بتایا ہے کہ نجیب اللہ کی کمان میں کارروائی کرتے ہوئے، طالبان جنگجوؤں نے جون 2008ء میں ایک فوجی قافلے پر حملہ کیا جس میں تین امریکی فوجی اور ایک افغان مترجم ہلاک ہوا۔

نیو یارک کی سدرن ڈسٹرکٹ عدالت میں وفاقی استغاثہ نے بتایا کہ یہ حملہ دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد اور راکٹ داغنے والے گرنیڈ کی مدد سے اور خودکار اسلحے کو استعمال کرتے ہوئے کیا گیا۔

ایک بیان میں وکیل استغاثہ، آدرے اسٹراس نے کہا کہ''جیسا کہ فرد جرم میں واضح ہے کہ افغان تنازع کا یہ ایک خطرناک ترین موڑ تھا جب حاجی نجیب اللہ طالبان سرکشوں کے اس بدنام ٹولے کا سرغنہ تھا جس نے افغانستان میں دہشت کا راج جما رکھا تھا اور امریکی فوجیوں پر حملے کیا کرتا تھا''۔

اغوا

نجیب اللہ پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے ایک امریکی صحافی اور دو افغان شہریوں کو اغوا کیا اور انھیں سات ماہ تک یرغمال بنائے رکھا۔

محکمہ انصاف نے باقی یرغمالیوں کے نام نہیں بتائے، لیکن ایک مترجم اور ایک ڈرائیور کے ہمراہ، نیو یارک ٹائمز سے تعلق رکھنے والے صحافی، ڈیوڈ رہوڈ کو نومبر 2008ء میں اغوا کیا گیا تھا۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق، اغوا کے معاملے کو صیغہ راز میں رکھا گیا تھا، تاکہ صحافی کی جان کو خطرے میں نہ ڈالا جائے۔ جون 2009ء میں رہوڈز کو اغوا کاروں سے رہا کرایا گیا۔

لگائے گئے 13 الزامات میں سے دس میں نجیب اللہ کو زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔