امریکی مردم شماری میں پاکستانی کمیونٹی کی عدم دلچسپی

  • ندیم یعقوب

امریکی مردم شماری میں پاکستانی کمیونٹی کی عدم دلچسپی

یہ سال امریکہ میں مردم شماری کا سال ہے۔ یہاں مردم شماری کی ابتدا امریکی انقلاب کے بعد1790 ءمیں ہوئی جو ہر دس سال کے وقفے سے باقاعدگی سے کی جارہی ہے۔ اس گنتی کی بنیاد پر نہ صرف امریکی کانگرس میں نشستوں کا تعین کیا جاتا ہے بلکہ حکومت کے ترقیاتی منصوبوں میں معاشی وسائل بھی اسی بنیاد پر مختص کئے جاتے ہیں۔ آبادی کے جوطبقے مردم شماری میں حصہ لینے سے کتراتے ہیں وہ معاشی اور ترقیاتی ثمرات سے محروم رہ جاتے ہیں اور ملک کے سیاسی نظام میں ان کا اثر ورسوخ بھی متاثر ہوتا ہے ۔ اس اہم قومی فریضے کے حوالے سے پاکستانی امریکن کمیونٹی کا رجحان کوئی زیادہ مثبت دکھائی نہیں دے رہا۔ جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔

مردم شماری کا یہ عمل مردم شماری کے بیورو کی نگرانی میں مکمل کیا جاتا ہے۔ مارچ میں شروع ہونے والے اس عمل میں تیرہ کروڑ گھرانوں سے اعدادوشمار اکٹھے کئے جا رہے ہیں ۔بیورو نے پاکستانی امریکن کمیونٹی کو ایسی کمیونٹی قرار دیا ہے جہاں تک رسائی دشوار ہے ۔ روایتی طور پر امریکہ میں بسنے والے پاکستانیوں کا شمار ان آبادیوں ٕمیں ہوتا ہے جو مردم شماری میں موثر طور پر حصہ نہیں لیتیں۔ ان آبادیوں میں اس رجحان کی ایک وجہ بڑی تعداد میں تارکین وطن کا غیر قانونی طورپر امریکہ میں رہائش پذیر ہونا ہے۔پاکستانی کمیونٹی کے لئے اس عمل کا حصہ بننا معاشرتی ، سیاسی اور سماجی اعتبار سے اہم ہے۔ ریاست میری لینڈ سے تعلق رکھنے والے بزنس مین عدیل شاہ کہتے ہیں کہ امریکی سوسائٹی میں شناخت حاصل کرنے کے لئے پاکستانی کمیونٹی کا مردم شماری میں شریک ہونا بے حد ضروری ہے۔

امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی کے حوالے سے کوئی قابل اعتبار اعداد وشمار حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔کئی اور وجوہات کے علاوہ ایک وجہ ان کا مردم شماری میں حصہ نہ لینا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پاکستانی اور دوسرےاقلیتی گروہ مردم شماری میں حصہ لینے سے کیوں کتراتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ غیر قانونی تارکین وطن میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ مردم شماری کا بیوروکہیں یہ اعداد وشمار امیگریشن یا ہوم لینڈ سیکیورٹی کےحکام کے حوالے نہ کردیں جس کی وجہ سے ان کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے جو حکام کے مطابق بالکل بے بنیاد ہے ۔پاکستانیوں میں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ روایتی طور پر اس عمل اور اس کی اہمیت سے ناواقف ہوتے ہیں ۔واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے میں کمینوٹی کے لئے منسٹر فقیر آصف حسین کہتے ہیں کہ امریکہ کے سیاسی نظام میں پاکستانی کمیونٹی سیاسی طور پر اتنی مؤثر نہیں جتنی ہونی چاہیے۔

کمیونٹی راہنما کہتے ہیں کہ آبادی میں شمار نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی امریکنز نے بھاری قیمت ادا کی ہے ۔ کئی دوسرے اقلیتی گروہوں کی نسبت پاکستانی امریکن کمیونٹی کا سیاسی اثر ورسوخ انتہائی کم ہے ۔ دوسری طرف جن علاقوں میں ان کی آبادی زیادہ ہے وہا ں وہ آبادی کے تناسب سے ملنے والے فنڈز اور ترقیاتی منصوبوں سے ٕمحروم رہ جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال کئی علاقوں میں وہ سکول ہیں جہاں طالب علموں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے جگہ کا تنگ ہونا ہے۔

تو کیاپاکستانی کمیونٹی کے اندر مردم شماری کی اہمیت کے حوالے سے شعور پیدا ہوا ہے۔ امریکہ میں پاکستانی امریکن کمیونٹی کی بہت سی تنظیمیں اس مرتبہ لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔

پاکستانی کمیونٹی کے لئے ان کی پوری گنتی نہ ہونے کے مسلے پر قابو پانا ناگزیر ہے۔مردم شماری کے بیورو نے اپنے طور پر پاکستانی کمیونٹی کی مردم شماری میں شمولیت کو یقینی بنانے اور حوصلہ افزائی کی غرض سے کئی مقامی اخبارات میں اردو زبان میں اشتہارات بھی چھپوائے ہیں۔

کسی بھی کمیونٹی میں قومی مسائل کے بارے میں شعور پیدا کرنے میں کمیونٹی کی تنظیمیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں ۔بہت سے پاکستانی امریکنز کا خیال ہے کہ اگر پاکستانی تنطیموں نے اس مرتبہ مردم شماری کے حوالے سے کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کیا تو امریکی سیاسی دھارےمیں پاکستانی کمیونٹی کا کردار مزید کم ہوسکتا ہے۔