اس ہفتے امریکہ کے سینسس بیورو نے امریکہ کی آبادی کے سرکاری اعداد و شمار جاری کر دیے ۔ اس سے پہلے مردم شماری کی بہت سی معلومات اور اعدادو شمار امریکن کمیونٹی سروے کی شکل میں فراہم کر دیے گئے تھے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ تارکینِ وطن بڑی تیزی سے امریکی معاشرے کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ مستقبل میں ملک کی آبادی میں اضافے کا انحصار ہسپانوی زبان بولنے والی اقلیت پر ہو سکتا ہے ۔
مردم شماری کے بیورو نے گذشتہ سال کے بعض اشتہار دکھائے جن سے ملک میں موجود تمام لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوئی کہ وہ گنتی میں شامل ہو جائیں۔ جیسا کہ آئین کے تحت ضروری ہے، بیورو کےڈائرکٹر رابرٹ گروز نے دس برس میں ایک بار ہونے والی مردم شماری کے اعداد و شمار پیش کیئے ۔
انھوں نے کہا کہ 2010 کی مردم شماری کے مطابق، یکم اپریل 2010 کو امریکہ میں رہنے والے لوگوں کی آبادی 308,745,538 افراد پر مشتمل ہے۔
اس عدد سے اس بات کا تعین ہوتا ہے کہ کانگریس میں ہر ریاست کی کتنی نشستیں ہوں گی، اور یہ عدد حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ لیکن چند روز پہلے جوامریکن کمیونٹی سروے جاری کیا گیا تھا، اس میں کہیں زیادہ تفصیلی معلومات درج ہیں۔ اس میں چھوٹے چھوٹے قصبوں تک میں آبادی میں دولت کی تقسیم، تعلیمی سطح، اور نسلی تنوع کے اعداد و شمار دیے ہوئے ہیں۔ اس سروے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ امریکہ میں بیرونی ملکوں میں پیدا ہونے والے تین کروڑ ستر لاکھ افراد رہتے ہیں۔ ان میں قانونی طور پر آئے ہوئے لوگ ہیں اور غیر قانونی طور پر رہنے والے بھی۔ اس طرح گذشتہ دہائی میں امریکہ کی آبادی میں تقریباً ساٹھ لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے ۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے ولیم فرے کہتے ہیں کہ اعداد و شمار سے پہلی بار یہ ظاہر ہوا ہے کہ نئے آنے والوں کے آباد ہونے کے انداز میں، پرانے تارکین وطن کے مقابلے میں تبدیلی آئی ہے ۔ پرانے لوگ نیو یارک، میامی، شکاگو، یا لاس انجیلیس میں آکر بس جاتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں ، امریکہ آنے والے تارکین وطن، بڑے شہروں کے وسطی علاقوں میں رہنے لگتے تھے۔ ان علاقوں میں یا تو ان کے اپنے ملکوں کے لوگ یا ان کے رشتے دار رہتے تھے ۔ لیکن اب اس رجحان میں کمی آ رہی ہے ۔ اب اپنا ملک چھوڑ کر آنے والے نصف سے زیادہ لوگ بڑے شہروں کے نواحی علاقوں میں چلے جاتے ہیں ۔
اقلیتی گروپوں میں سب سے بڑے گروپ کا تعلق لاطینی امریکہ کے ملکوں سے ہے جن کی تعداد تقریباً دو کروڑ ہے ۔ دوسرے نمبر پر وہ لوگ ہیں جو ایشیا کے ملکوں میں پیدا ہوئے تھے ۔ ان کی کل تعداد ایک کروڑ ہے ۔فرےکہتے ہیں کہ ہسپانوی زبان بولنے والے نئے تارکین وطن پینسلوانیا ، ٹینی سی، نیش ول، جیسے مقامات میں بس رہے ہیں۔ یہ وہ علاقے میں جن پہلے کبھی ہسپانوی زبان بولنے والے بڑی تعداد میں آباد نہیں ہوئے۔
نیو یارک یونیورسٹی کے امیگریشن اسٹڈیز کے پروفیسر میرسیلو سوریز اوروزکو کا خیال ہے کہ اس سروے سے امریکہ کی ایک خصوصیت کی نشاندہی ہوتی ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اب امیگریشن ہماری رگ و پے میں، ہمارے ڈی این اے میں رچ بس گیا ہے ۔ اب ہر جگہ تارکین وطن نظر آتے ہیں۔
لیکن انہیں کچھ مسائل بھی نظر آ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ اچھی خبر تو یہ ہے کہ ہسپانوی زبان بولنے والے تارکینِ وطن امریکی معاشرے میں، ایسے طریقوں سے اپنی جگہ بنا رہے ہیں جو بڑی حد تک پچھلی نسل کے لوگوں کے طریقوں سے ملتے جلتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا کافی ہے؟
وہ کہتے ہیں کہ ہسپانوی زبان بولنے والے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی نسبتاً خراب تعلیمی کارکردگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں وہ سہولتیں نہیں مل رہی ہیں جو آج کل کی نئی معیشت میں کامیابی کے لیئے ضروری ہیں۔ آج کے دور کی معیشت کی بنیاد اعلیٰ تعلیم پر ہے ۔ پروفیسر اوروزکو کہتے ہیں کہ یہ بات بہت اہم ہے کیوں کہ ان کی پیشگوئی ہے کہ مستقبل میں آبادی میں جو اضافہ ہو گا، اس میں 80 فیصد سے زیادہ ہسپانوی زبان بولنے والے لوگ ہوں گے۔