امریکہ اورجنوبی کوریا کے بحری جہازوں کی جنگی مشقیں شروع

امریکہ کا طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس رونلڈ ریگن بوسان ، جنوبی کوریا کے ایک ساحل سے روانہ ہورہا ہے ، فوٹو اے پی 26 ستمبر 2022

ایک امریکی طیارہ بردار بحری جہاز اورجنگی کارروائیوں سے متعلق اس کے گروپ نے پیر کے روز جزیرہ نما کوریا کے مشرقی ساحل کے قریب جنوبی کوریا کے جنگی جہازوں کے ساتھ جنگی مشقیں شروع کر دی ہیں جو پانچ سال میں اس نوعیت کی پہلی ایسی مشق ہے۔ جب کہ ان مشقوں سے ایک روز قبل شمالی کوریا نے ممکنہ ردعمل کے طور پر کم فاصلے پر ہدف بنانے والے ایک میزائل کا تجربہ کیا ہے۔

شمالی کوریا آئندہ دنوں میں مزید تجربات کر سکتا ہے کیوں کہ وہ امریکہ اور جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی مشقوں کو ایک حملے کی ریہرسل کے طور پر دیکھتا ہے اور اکثر اوقات اپنے حریفوں کے لیے تیار کِے گئے ہتھیاروں کی نمائش کے ساتھ رد عمل ظاہر کرتا ہے ۔

جنوبی کوریا کی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان چار روزہ مشقوں کا مقصد اتحادیوں کی جانب سے شمالی کوریا کی اشتعال انگیزیوں کا جواب دینے کے مضبوط عزم کا اظہار اور مشترکہ بحری مشقیں انجام دینے کی صلاحیت کو بہتر بنانا ہے ۔

امریکی بحریہ کےایک بیا ن کے مطابق امریکہ اور جنوبی کوریا کی بحریہ کے بیس سے زیادہ بحری جہازوں کو ، جن میں طیارہ بردار ایٹمی بحری جہاز یو ایس ایس رونلڈ ریگن ، ایک امریکی کروزر اور جنوبی کوریا اور امریکہ کے ڈیسٹرائیرز شامل ہیں، کو ان مشقوں کےلیےحرکت میں لایا گیا ہے۔ جب کہ جنوبی کوریا کےلڑاکا جیٹ طیارےا ور ہیلی کاپٹرز بھی اس جنگی مشق میں حصہ لیں گے۔

2017 کے بعد سے جب امریکہ نے شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل تجربات کےجواب میں جنوبی کوریا کے ساتھ بحریہ کی مشقوں کے لیے تین طیارہ بردار بحری جہاز بھیجے تھے جن میں طیارہ بردار بحری جہاز ریگن شامل تھا، یہ جزیرہ نما کوریا کے نزدیک کسی طیارہ بردار امریکی جہاز پر مشتمل پہلی مشترکہ مشق ہے ۔

2007 کی اس جنگی مشق کے بعد اتحادیوںے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام پر معطل شدہ مذاکرات یا کووڈ۔ 19 کی روک تھام سے متعلق پروگراموں کو ِ آگے بڑھانے کے لیے اپنی کچھ مشقیں منسوخ یا ان میں کمی کر دی تھی۔

SEE ALSO: امریکہ اور جنوبی کوریا کی سب سے بڑی مشترکہ فوجی مشقیں شروع ہو گئیں

شمالی کوریا نے اس سال میزائلوں کے ریکارڈ تجربات کیے ہیں جب کہ اس نےامریکہ اور جنوبی کوریا کی جانب سے جوہری سفارت کاری دوبارہ شروع کرنےکے مطالبات کو ثابت قدمی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس وقت تک مذاکرات کی میز پر واپس نہیں آئے گا جب تک امریکہ اپنی معاندانہ پالیسیاں تبدیل نہیں کر دیتا ۔شمالی کوریا کا بظاہراشارہ امریکہ اور جنوبی کوریا کی فوجی مشقیں اور اس پر عائد امریکی پابندیاں ہیں ۔

اس ماہ کے شروع میں شمالی کوریا نے ایک نیا قانون منظور کیا جس میں بعض حالات میں جوہری ہتھیاروں کے حفظ ما تقدم کے طور پر استعمال کا اختیار دیا گیا ہے ۔ یہ ایک ایسی پیش رفت ہے جس اس کی جانب سے مسلسل بڑھتے ہوئے جارحانہ جوہری نظریے کو ظاہر کرتی ہے۔

اس ماہ کے شروع میں، شمالی کوریا نے ایک نیا قانون اپنایا ہے جس میں بعض حالات میں جوہری ہتھیاروں کے قبل از وقت استعمال کی اجازت دی گئی۔یہ ایک ایسی پیشرفت ہے جس نے اس کے بڑھتے ہوئے جارحانہ جوہری نظریے کو ظاہر کیا۔

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کوآخرکار اپنی جوہری صلاحیت سے جزوی طور پر دستبردار ہونے کےبدلے میں پابندیوں میں نرمی اور دوسری مراعات حاصل کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ ہتھیاروں پر کنٹرول کے مذاکرات میں شامل ہونا پڑے گا۔

(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)