|
امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے میں شامل ہونے کے چند ہفتے بعد ہی مصری نژاد امریکی طالبہ لیلیٰ سید کو ان کے ایک دوست کی جانب سے ایک ٹیکسٹ میسج موصول ہوا جس میں انہوں نے ایک ایسی ویب سائٹ کی جانب لیلی کی توجہ مبذول کرائی جو ایسے لوگوں کی تفصیلات بتا رہی تھی جو ان کے بقول اسرائیل اور یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں۔
اس ٹیکسٹ میسج میں ان کی دوست نے انہیں کہا کہ ان کے خیال میں اس ویب سائٹ سے تعلق رکھنے والے افراد کی نظر لیلیٰ پر اس مظاہرے کے دوران پڑی ہوگی۔
’کناری مشن‘ نامی ویب سائٹ نے بعد میں لیلیٰ کی تصویر اپنے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ اور انسٹاگرام اکاؤنٹ پر بھی پوسٹ کی۔
انہوں نے لیلیٰ کی تصویر کے ساتھ انہیں حماس کے جنگی جرائم کی حامی بھی قرار دیا۔
سوشل میڈیا پر لیلیٰ سے متعلق تبصرے آنا شروع ہو گئے۔ کچھ سوشل میڈیا صارفین نے لکھا کہ اب لیلیٰ کا مستقبل اچھا نہیں ہوگا۔ کسی نے انہیں غزہ بھیج دینے پر زور دیا۔
لیلیٰ کا کہنا ہے کہ وہ کافی عرصے سے فلسطینی مؤقف کی حمایت کرتی آئی ہیں۔ لیکن یہ پہلی دفعہ ہے کہ وہ پین یونیورسٹی میں فلسطینیوں کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے میں شریک ہوئی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ کناری مشن نے ایک نعرے کی بنیاد پر ان کا نام اس فہرست میں شامل کیا ہے۔ وہ اس نعرے، کہ ’قبضے کے خلاف مزاحمت جائز ہے‘، میں شامل ہوئی تھیں اور کناری مشن نے اسے حماس کی جانب سے سات اکتوبر کے حملے کی توجیح قرار دیا۔
کناری مشن نے اپنی ویب سائٹ پر خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو ردِ عمل دیتے ہوئے بتایا کہ وہ یہود مخالف اس نئی لہر کے خلاف مسلسل کام کر رہے ہیں۔ ان میں ان لوگوں کے چہرے بھی دکھانا ہے جو ان کے بقول حماس کی حمایت کرتے ہیں۔
ویب سائٹ نے لیلیٰ سے متعلق سوالات اور انہیں آن لائن ملنے والے منفی تبصروں سے متعلق بھی جواب نہیں دیا۔
ویب سائٹ کے ترجمان کے مطابق وہ لوگوں کی جانب سے دی گئی معلومات پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن خود بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
پین یونیورسٹی نے لیلی کے معاملے پر کوئی ردِ عمل نہیں دیا۔
SEE ALSO: امریکی جامعات میں احتجاج اور عرب دنیا میں خاموشی؛ غزہ کے لوگ کیا سوچتے ہیں؟یونیورسٹی کے ترجمان نے بتایا کہ وہ اپنی کمیونٹی کی بہتری پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔
کناری مشن ایسی ویب سائٹس میں قدیم اور سب سے مقبول ہے جو اسرائیل کے ناقدین کو ’ایکسپوز‘ کرنے کا مشن رکھتی ہیں۔ لیکن ایسے افراد کو جب فہرست میں شامل کیا جاتا ہے جیسے لیلیٰ کو کیا گیا تو انہیں بعد میں آن لائن نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس ویب سائٹ کے پیچھے کام کرنے والے افراد نے اپنی شناخت، محل وقوع اور فنڈنگ کے ذرائع ظاہر نہیں کیے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے ان افراد کو، جنہیں کناری مشن نے سات اکتوبر کے بعد اپنی فہرست میں شامل کیا ہے، پر ہونے والی آن لائن ہراسانی پر نظر ڈالی ہے۔
اس ویب سائٹ نے 250 سے زائد ایسے افراد کو اپنی فہرست میں شامل کیا ہے۔ ویب سائٹ نے ان طلبہ اور اساتذہ پر دہشت گردی کی حمایت، یہود مخالف نظریات پھیلانے اور اسرائیل سے نفرت کا الزام لگایا ہے۔
ان میں سے کچھ فلسطینی حقوق کا مطالبہ کرنے والے گروہوں کے سربراہ بھی شامل ہیں یا ایسے افراد بھی ہیں جو معمولی وجوہات سے مظاہرے کے دوران گرفتار ہوئے یا ایک نے یہودی طالب علم کو مکا رسید کیا تھا۔
جس طرح لیلیٰ کا کہنا ہے کہ وہ بس ایک مظاہرے میں شریک ہوئی تھیں۔
SEE ALSO: امریکہ: کئی جامعات میں گریجویشن تقریبات منسوخ، ایم آئی ٹی کے طلبہ باڑ توڑ کر خیموں میں پہنچ گئےرائٹرز نے امریکہ کی چھ یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے 17 طلبہ اور ایک ریسرچ فیلو سے بات کی ہے جن کے نام کناری مشن کی ویب سائٹ پر شامل کیے گئے ہیں۔
ان میں سے ایک کے سوا تمام افراد کا دعویٰ ہے کہ انہیں سات اکتوبر کے بعد کناری مشن ویب سائٹ پر شامل کرنے کے بعد سے نفرت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انہیں جو میسج موصول ہوئے ہیں جو رائٹرز نے دیکھے ہیں، ان میں انہیں ڈی پورٹ کرنے، یونیورسٹیوں سے بے دخل کرنے سے لے کر انہیں ریپ اور قتل کی دھمکیوں جیسے پیغام بھی شامل ہیں۔
کناری مشن جیسی ویب سائٹس کی طرز پر حالیہ مہینوں میں فلسطینیوں کی حمایت والی ویب سائٹس نے بھی ایسی ہی حکمتِ عملی اختیار کی ہے۔
ان میں ایکس پر اسٹاپ زائنسٹ ہیٹ اکاؤنٹ اور ویب سائٹ ریون مشن شامل ہیں۔
یہ گروپ ایسے لوگوں کو نمایاں کرتے ہیں جو بقول ان کے اسلام و فوبیا کی ترویج اور فلسطینیوں پر مظالم کی حمایت کرتے ہیں۔
SEE ALSO: کولمبیا یونیورسٹی کی فلسطینیوں کے حامی طلبہ کو نکالنے کی دھمکیریون مشن کی جانب سے رائٹرز کو جواب موصول نہیں ہوا جب کہ اسٹاپ زائنسٹ ہیٹ کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکیوں کو بقول ان کے صیہونیوں کی جانب سے لاحق خطرے کا علم ہو۔
ناقدین طریفین پر سائبر بُلیئنگ کا الزام لگاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے آزادیٴ اظہار کے حق کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
امریکہ بھر میں فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے گروہوں نے مظاہرین کو ماسک پہننے کا کہا ہے۔
کناری مشن اور اس کا دفاع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جو لوگ نفرت کی ترویج کرتے ہیں انہیں اس کا حساب دینا چاہیے۔
اپنی ویب سائٹ پر کناری مشن پر ان افراد کے ناموں، تصاویر سمیت ان کی ملازمت کی تفصیلات، یا وہ کس یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں ایسی تفصیلات بھی دی ہیں اور وہ سوشل میڈیا پر اپنے فالورز سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آج کے انتہا پسند کل کہیں ملازمت نہ لے پائیں۔
اس ویب سائٹ پر فہرست میں شامل ہونے والے 10 ایسے طلبہ نے رائٹرز کو بتایا کہ وہ اپنے مستقبل اور کریئر کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وکلا اور ایڈووکیسی گروہوں کا کہنا ہے کہ اس ویب سائٹ کا نشانہ بننے والے افراد کے پاس بہت زیادہ آپشن نہیں ہیں۔ کناری مشن کی جانب سے پوسٹ کیے جانے والا مواد امریکہ کی پہلی آئینی ترمیم، جو آزادیٴ اظہار کا حق دیتی ہے، کے تحت قانونی ہے۔
اس کے علاوہ کناری مشن چلانے والوں کی شناخت اور ان کا پتا معلوم نہ ہونا بھی ایک وجہ ہے کہ قانونی ذریعہ کارگر نہیں۔
فلسطین لیگل گروپ سے تعلق رکھنے والی وکیل ڈلن صبا کا کہنا ہے کہ اگر آپ نے کسی پر ہرجانہ کرنا ہے تو یہ علم ہونا بھی ضروری ہے کہ اس کا نوٹس کہاں بھیجا جائے۔
کناری مشن نے رائٹرز کو بتایا کہ ان کی ویب سائٹ 2015 میں امریکی یونیورسٹیوں میں یہود مخالف نفرت کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ ویب سائٹ نے اس کی قیادت اور فنڈنگ کے حوالے سے رائٹرز کے بھیجے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
اسرائیلی نان پرافٹ گروپ سے تعلقات
امریکہ کی ایک معروف چندہ دینے والے یہودی ادارے دی ہیلن ڈلر فیملی فاؤنڈیشن کی 2016 کی ٹیکس فائلنگ سے معلوم پڑتا ہے کہ کناری مشن کا مالی تعلق ایک اسرائیلی نان پرافٹ ادارے میگاموٹ شالوم سے ہے۔
اس سال ڈلر فاؤنڈیشن نے ایک لاکھ ڈالر سینٹرل فنڈ آف اسرائیل نامی ایک ادارے کو دیے جس کی وجہ ’’کناری مشن فار میگاموٹ شالوم‘‘ بتایا گیا۔ یہ دستاویز پہلی بار امریکہ کے ایک یہودی خبروں کے ادارے دی فارورڈ کی جانب سے چھاپی گئی۔ اسے رائٹرز نے بھی دیکھا۔
SEE ALSO: غزہ جنگ کے خلاف جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے 33 افراد گرفتار، پولیس کارروائی پر تنقیدسینٹرل فنڈ فار آف اسرائیل ایک امریکہ سے تعلق رکھنے والا گروپ ہے جو اسرائیلی چندہ دینے والے گروہوں کو رقوم فراہم کرتا ہے۔ ان رقوم پر امریکہ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوتی ہے۔
اس کے صدر جے مارکس نے رائٹرز کو بتایا کہ ان کا گروپ رجسٹرڈ چیریٹیز کی مدد کرتا ہے۔ لیکن میگاموٹ شالوم یا کناری مشن سے تعلق کی تصدیق نہیں کی۔
رائٹرز کئی کوششوں کے باوجود ڈلر فاؤنڈیشن کے نمائندے تک رسائی نہیں پا سکا۔
ڈلر فاؤنڈیشن کی جانب سے دی جانے والے فنڈنگ کی نگرانی کرنے والے گروپ جیوش کمیونٹی فیڈریشن اینڈ انڈومنٹ فنڈ آف سان فرانسسکو نے رائٹرز کو 2018 کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ ان کا فنڈ کناری مشن کے کام کی حمایت کرتا رہا ہے۔ لیکن وہ مستقبل میں اس ویب سائٹ کی مدد نہیں کریں گے۔
اس کی وجہ انہوں نے سینٹرل فنڈ آف اسرائیل کی جانب سے ان کے چندے سے متعلق ہدایات پر مکمل عمل نہ کرنا بتایا ہے اور اس کی تفصیل بتانے سے انہوں نے انکار کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کناری مشن نے میگاموٹ شالوم سے اپنے تعلق سے متعلق سوال کا جواب نہیں دیا۔
اسرائیل میں کارپوریشن رجسٹری سے حاصل ہونے والی تفصیلات کے مطابق میگاموٹ شالوم 2016 میں قائم ہوا اور اس کا مشن اسرائیل کی ریاست کا امیج میڈیا کے ذریعے بہتر کرنا ہے۔
سال 2022 تک کی دستاویز سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کناری مشن میں 11 افراد کام کرتے ہیں جن میں سے چار کا کام مواد ترتیب دینا ہے۔ انہیں فنڈ فراہم کرنے والے ایک ہی ادارے کا نام رجسٹری سے پتا چلتا ہے جو سینٹرل فنڈ آف اسرائیل ہے۔ اس ادارے سے ویب سائٹ کو 2019 سے 2022 تک 35 لاکھ ڈالر ملے تھے۔
رائٹرز میگاموٹ شالوم کے بانی جاناتین بیش اور دوسرے ملازمین تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔
جب رائٹرز کے صحافی گروپ کے رجسٹرڈ پتے پر گئے جو یروشلم سے 23 کلومیٹر دور بیت شامیش نامی شہر کا تھا، وہاں پر ایک منزلہ عمارت تھی، جس پر تالہ لگا ہوا تھا اور یہ عمارت کافی عرصے سے بند تھی۔
SEE ALSO: کون سے ملک اسرائیل کو کیا ہتھیار فراہم کرتے ہیں؟کناری مشن پر اپنی پروفائل ملنے کے بعد لیلیٰ نے کونسل آف امیرکن مسلم ریلیشنز سے رابطہ کیا۔ یہ ایک ایڈووکیسی گروپ ہے۔ احمد تاکیلوگلو اس گروپ کے فلاڈلفیا برانچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔
انہوں نے اگرچہ انٹرنیٹ سے لیلیٰ سے متعلق معلومات ہٹانے میں مدد کرنے کا کہا مگر ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں قانونی چارہ جوئی مشکل ہوگی کیوں کہ یہ کناری مشن امریکہ میں رجسٹرڈ نہیں ہے۔
احمد کا کہنا ہے کہ کناری مشن کا مواد اگرچہ منفی قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ رائے کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسے میں اس پر امریکہ میں قانونی چارہ جوئی ممکن نہیں ہے۔
لیلیٰ کا کہنا ہے کہ اپنی سلامتی سے متعلق خدشات کی وجہ سے انہوں نے اپنے بیگ پر لٹکے کفایہ کو ہٹا دیا ہے۔
انہیں محسوس ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے وہ کسی بھی وقت نشانہ بن سکتی ہیں۔
وہ کیمپس میں اکیلے کہیں نہیں جاتیں اور انہوں نے لنکڈن پر اپنی پروفائل فی الوقت بند کر دی ہے۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔