امریکہ نے جنوبی ایشیا میں جوہری صلاحیت کے حامل دو ملکوں پاکستان اور بھارت سے کہا کہ وہ پانی کی تقسیم کے ’سندھ طاس‘ معاہدے سے متعلق اختلافات کو دور کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے روزانہ کی نیوز بریفنگ میں کہا کہ سندھ طاس معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ پانچ دہائیوں سے پرامن تعاون کا نمونہ رہا ہے۔
جان کربی نے کہا کہ اُن کا ملک ماضی میں بھی پاکستان اور بھارت کی حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے اختلافات دور کرنے کے لیے بات چیت کریں۔
ایک سوال کے جواب میں جان کربی نے تصدیق کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے گزشتہ ہفتے رابطہ کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق اس رابطے میں بھی ’سندھ طاس‘ معاہدے سے متعلق ہی بات چیت کی گئی تھی۔
بین الاقوامی قوانین کے ماہر احمر بلال صوفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم سے متعلق ’سندھ طاس‘ معاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، تاہم اُن کے بقول شاید دونوں ملک اپنے طور پر اس حوالے سے اختلافات دور نا کر سکیں۔
’’پاکستان اور بھارت کیا اس پوزیشن میں ہیں کہ اس (مسئلے) کو حل کر سکیں۔ مشکل ہے کیونکہ اگر وہ اس پوزیشن میں ہوتے تو پہلے ہی یہ معاملہ حل ہو جاتا ۔۔۔ اگر یہ (دنوں ملک) کر پاتے ہیں تو بہت اچھا ہو گا اگر نہیں کر پاتے تو غیر یقینی اور کشیدگی اور زیادہ بڑھ جائے گی جو اس وقت بھی بڑھ گئی ہےکیونکہ پاکستان کے اندر ایک اندیشہ یہ ہے کہ ورلڈ بینک نے جو اپنا کردار ہے، بطور ثالث کا اُس سے عالمی بینک نے پہلو تہی کی ہے۔"
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ عالمی بینک نے پاکستان اور بھارت سے کہا تھا کہ وہ آبی تنازع اپنے طور پر حل کریں۔
لیکن پاکستان نے عالمی بینک سے کہا کہ وہ سندھ طاس معاہدے سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور اس ضمن میں پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے عالمی بینک کے صدر جم یانگ کم کو ایک خط بھی لکھا تھا۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ پانی کی تقسیم سے متعلق طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کو بھارت یکطرفہ طور پر ختم یا تبدیل نہیں کر سکتا ہے اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر اس معاہدے کو ختم کیا گیا تو اُسے پاکستان کے خلاف جنگی اقدام تصور کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے تناظر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے حال ہی میں سندھ طاس معاہدے سے متعلق اُمور پر غور کیا تھا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم سے متعلق سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں طے پایا تھا۔ معاہدے کے تحت بھارت کو پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کا زیادہ پانی ملے گا یعنی اُس کا ان دریاؤں پر کنٹرول زیادہ ہو گا۔
جب کہ جموں و کشمیر سے نکلنے والے مغربی دریاؤں چناب , جہلم اور سندھ کا زیادہ پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔
پاکستان کا موقف ہے کہ 1965 اور 1971 کی جنگوں کے دوران بھی سندھ طاس معاہدہ برقرار رہا اور ایسی کوئی وجہ نہیں کہ حالیہ کشیدگی میں اس معاہدے کے مستقبل کے بارے میں غور کیا جائے۔