امریکی سینٹ میں اقلیتی جماعت کے رہنما مِچ میکونل نے برما میں سیاسی اصلاحات کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی مزید تبدیلی کی ضرورت ہے۔
سینیٹرمیکونل حال ہی میں برما کے دورے سے لوٹے ہیں ، اور برما میں انہوں نے نوبل انعام یافتہ جمہوریت نواز لیڈر آنگ ساں سوچی اور صدر تھین سین سے ملاقات کی۔
سینٹ میں ری پبلکن جماعت کے چوٹی کے رہنما سینیٹر مِچ میکونل نے ایوان میں برما کے بارے میں ایک پُر امید اور محتاط انداز میں مثبت پیغام دیا ہے۔ انہوں نے برما کو دنیا کی تنہا ترین اور جبر کی ماری ریاست قرار دیا۔ اُن کے الفاظ میں: ’ ہم میں سے بہت سے یہ سوچتے تھے کہ کیا برما میں صورتحال کبھی تبدیل بھی ہو گی۔ اور اب اس حالیہ دورے کے بعد مجھے یہ بتاتے ہوئے مُسرت محسوس ہو رہی ہے کہ تبدیلی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ چھہ ماہ کے دوران برما نے جمہوریت کی جانب گزشتہ کئی عشروں کی نسبت زیادہ پیش رفت کی ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک خوشی کی خبر ہے‘۔
سینیٹر میکونل ہر سال بننے والے اُن قوانین کے خالق ہیں جن کے تحت برما پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔
انہوں نے برما میں غیر فوجی حکمرانی کی جانب تبدیلی کی تعریف کی جس میں آنگ ساں سوچی سمیت سیاسی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔ سوچی گزشتہ بیس سال سے اپنے گھر پر نظر بند تھیں۔ گزشتہ ہفتے سینیٹر میکونل نے آنگ ساں سوچی سے ملاقات بھی کی۔
اُنھوں نے بتایا ہے کہ، ’ انصاف کی فراہمی میں دیر ہونےکا یہ مطلب نہیں ہے کہ انصاف نہیں ملے گا ، اور اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آنگ ساں سوچی نے اپنے صبر اور حوصلے سے اپنے ملک میں آزادی کی امید کو زندہ رکھا ۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں نوبل انعام حاصل کرنے والی اُس ہستی سے شخصی طور پر مل سکوں گا۔ اور صدر صاحب وہ کیا گھڑی تھی جب مجھے یہ شرف حاصل ہوا‘۔
سینیٹر میکونل کا کہنا تھا کہ برما کی حکومت نے بلا شبہ اصلاحات کی جانب مثبت اقدامات اٹھائے ہیں، اور واشنگٹن اور رنگون کے
درمیان سفیروں کے تبادلے کی توثیق کی ہے، لیکن ابھی مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر میکونل کا کہنا تھا ’برما کی حکومت کو ابھی بہت آگے جانا ہے تا کہ حقیقی اور دیرپا اصلاحات حاصل کی جا سکیں۔ اگر اس میں مزید پیش رفت نہیں ہوتی، تو امریکی پابندیاں اٹھانے کی میں تو حمایت نہیں کرتا اور میرا خیال ہے کہ اوباما انتظامیہ بھی اس کی حمایت نہیں کرتی‘۔
سینیٹر میکونل کے نزدیک آئندہ پارلیمانی انتخابات اس پیش رفت کا ایک اہم امتحان ہونگے۔ انہوں نے برما کی حکومت اور ملک کی نسلی اقلیتوں کے درمیان مکمل مفاہمت پر زور دیتے ہوئے، برما کے جنوبی کوریا کے ساتھ لین دین کے معاملات کو بھی منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا۔
اُدھر ،اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو دِئیے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں برما کے صدر کا کہنا تھا کہ ان کے ملک نے مغربی دنیا کی جانب سے کئے جانے والے مطالبات کو پورا کر دیا ہے، اور اب اُنہیں امید ہے کہ امریکی پابندیوں میں نرمی لائی جائے گی اوربل آخر اِنہیں ختم کر دیا جائے گا۔