برما پر سے پابندیوں کی نرمی اصلاحاتی عمل سے مشروط

برما میں حزب اختلاف کی جانب سے پارلیمنٹ میں شرکت کے فیصلے کے بعد امریکہ کا خیال ہے کہ اس ملک میں اب کئی نمایاں سیاسی اصلاحات کا دروازہ کھل گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے تعاون کی پیش کش سے اس جنوبی ایشیائی ملک میں مزید سیاسی تبدیلیوں کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔

برما کی حزب اختلاف کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے یکم اپریل کو ضمنی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد آخر کار پارلیمنٹ کی رکنیت کا حلف اٹھا لیا ہے جس کی ایک چوتھائی نشستیں فوج کے لیے مختص ہیں اورایوان میں فوج کی حمایت سے کامیاب ہونے والے حکمران جماعت کے ارکان کی اکثریت ہے۔

نوبیل انعام یافتہ شخصیت اور راہنما آنگ ساں سوچی ، حلف کے الفاظ پر بائیکاٹ پر اپنی دھمکی واپس لے کرپہلی بار پارلیمنٹ کےایک عوامی عہدے پر فائز ہوئی ہیں۔ فوج کے تحریر کردہ حلف نامے میں آئین کے تحفظ کا وعدہ کیا گیا ہے جب کہ سوچی تحفظ کے لفظ کو احترام میں بدلنے پر اصرار کررہی تھیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے اسے ایک امیدافزا علامت قراردیتے ہوئے کہاہے کہ اب جمہوریت نواز سرگرم کارکن اور حکومتی ارکان برما میں سیاسی تبدیلیوں کا عمل جاری رکھنے کے لیے اب مل کر کام کریں گے۔

ان کا کہناہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ تعمیری انداز میں کام کریں۔ ہم انہیں آگے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں اور جہاں تک اس عمل کی واپسی کاتعلق ہے تو ہم برما میں جاری اصلاحات کے تسلسل پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

برما پر عائد امریکی پابندیوں میں سے چند ایک کو نرم کرنے کا ذکر کرتےہوئے ٹونر کا کہناہے کہ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کا موقف اس بارے میں بڑا واضح ہے کہ واشنگٹن مزید پیش رفت ان کے ہر عمل کو مدنظر رکھ کر ہی کرے گا۔

برما میں ہونے والی اصلاحات ، بیجنگ میں امریکہ اور چین کے عہدے داروں کے درمیان اس ہفتے کے مذاکرات کا ایک حصہ ہیں۔ برما کی فوج کی جانب سے تحریر اور اظہار کی آزادی چین کے ساتھ اس ملک کی کشیدگی پیدا ہونے کا ایک حصہ ہے جس میں برما نے شہری حقوق کے کارکنوں کے تحفظات کو سامنے رکھتے ہوئے چین کی مدد سے تیار کیے جانے والے تین ارب ڈالر مالیت کا پن بجلی کی تعمیر معطل کردی تھی۔

جب آنگ ساں سوچی کی جماعت نے پارلیمنٹ کے ضمنی انتخابات میں 45 میں سے 40 نشستوں پرکامیابی حاصل کی تو امریکہ نے اس ملک پر عائد کئی پابندیاں نرم کردی تھیں۔ اس نرمی کے تحت اب برما کے سینیئر عہدےداروں اورپارلیمنٹ کے ارکان کو امریکہ کے دورے کی اجازت مل گئی ہے۔

واشنگٹن نے اب برما کے لیے مالیاتی خدمات اور سرمایہ کاری پر عائد پابندیاں اٹھا لی ہیں اور اب وہ رنگون میں اپنا ایک سفیر مقرر کرنے اور اپنے بین الاقوامی ترقیاتی مشن کا ایک مکمل دفتر اور اس ملک کے لیے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے دفتر کے قیام کی بھی تیاری کررہاہے۔