امریکہ اور برطانیہ کو بیک وقت نہ ختم ہونے والے سیاسی بحرانوں کا سامنا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے۔ فائل فوٹو

امریکہ اور برطانیہ دنوں ایسے سیاسی بحرانوں سے گزر رہے ہیں جو ختم ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ امریکی ایوان نمائیندگان کے نئے منتخب ہونے والے ارکان نے بدھ کے روز سنیٹ پر زور دیا کہ وہ شٹ ڈاؤن یعنی حکومت کی بندش کے بارے اخراجاتی بلوں پر ووٹنگ کروایں جبکہ برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے پارلیمان میں بریکسٹ کے سمجھوتے کی شکست کے بعدکل بدھ کے روز عدم اعتماد کی ووٹنگ میں بال بال بچیں۔

ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے نئے ارکان کانگریس نے کل بدھ کے روز سنیٹ پر زور دیا کہ وہ اس مالی بل پر رائے شماری کا اہتمام کرے جس سے شٹ ڈاؤن ختم کیا جا سکے۔ ایوان نمائیندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی نو منتخب رکن اِلہان عمر کا کہنا ہے ’’ہم نے سنیٹ میں اکثریتی فریق کو وہی بل بھجوائے ہیں جن کے حق میں وہ پہلےووٹ دے چکے ہیں۔ اب ہم اُنہیں یہ بل منظور کرنے کیلئے اپنی انتظامیہ کی طرف سے اجازت کا انتظار کئے بغیر لیڈرشپ دکھانے کا ایک موقع فراہم کر رہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بل پر دستخط کر دئے ہیں جس کے ذریعے فرلو پر جانے والے یا پھر بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے لگ بھگ 800,000 سرکاری ملازمین کو معاوضے کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جب تک امریکہ۔میکسیکو سرحد پر دیوار کی تعمیر کیلئے فنڈنگ کی منظوری نہیں دی جاتی، وہ شٹ ڈاؤن ختم نہیں کریں گے۔

اُدھر برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے کی بریکسٹ سمجھوتے سے متعلق اپنی پارلیمان کے ساتھ محاذ آرائی جاری ہے۔ یہ سمجھوتا اُنہوں نے یورپین یونین کے ساتھ کیا تھا۔

یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائینا میں سیاسیات کے ماہر کلاس لیرس کا کہنا ہے کہ مغربی دنیا کی دونوں کلیدی جمہوریتوں کے بحران عوامی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بریکسٹ پر ریفرنڈم 2016 کے وسط میں ہوا تھا۔ ٹرمپ اس کے چند ماہ بعد صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان دونوں میں ایک واضح تعلق موجود ہے کیونکہ 2016 عوامیت کی تحریک کا نقطہ آغاز تھا اور ان دونوں ملکوں نے اس سلسلے میں ایک دوسرے سے تعاون کیا۔۔

لیرس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور بریکسٹ کے لیڈر نائجل فیراج نے کھلے عام ایک دوسرےکی حمیت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے دیوار کی تعمیر پر اصرار اور برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی ایسے معاملات ہیں جن سے عالمی معیشت اور امیگریشن کیلئےشدید خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، ’’اقتصادی انحطاط کا خوف، غیر ملکیوں سے متعلق خوف، پناہ گزینوں کا خوف اور قومی شناخت کھو جانے کا خوف، میرے خیال میں لوگوں کی اکثریت اس سے گزر رہی ہے اور ان میں برطانیہ اور امریکہ کے عوام کا بڑا طبقہ شامل ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طویل مدت تک جاری رہنے والے ان سیاسی بحرانوں سے دنیا بھر میں امریکہ اور برطانیہ کے اثرورسوخ میں کمی واقع ہو رہی ہے اور روسی صدر ولادی میر پوٹن اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کلاس لیرس کا کہنا ہے کہ اُن کے خیال میں اس کا براہ راست فائدہ پوٹن کو نہیں پہنچ رہا ہے۔ تاہم چاہے امریکہ ہو یا برطانیہ، کوئی بھی ایسا معاملہ جو مغرب کے مضبوط جمہوری ملکوں کو نقصان پہنچاتا ہے وہ امریکہ اور برطانیہ کے دوست ممالک کیلئے اچھا نہیں ہے۔

لیرس کا کہنا ہے کہ امریکہ میں شٹ ڈاؤن اُس وقت ختم ہو گا جب یہ امریکی معیشت کو متاثر کرنے لگے گا۔ برطانیہ کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ بحران کے نتیجے میں ایک اور ریفرنڈم منعقد ہو سکتا ہے۔ یہ ایسا ریفرنڈم ہو گا جس میں ووٹ دینے والے لوگ یورپین یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے اثرات کا پہلے کی نسبت بہتر طور پر با خبرہوں گے۔