شام امن اجلاس میں ایران شریک نہیں ہو گا: براہیمی

فائل

ایران تقریباً تین برس پرانے تنازع میں حکومتِ شام کی حمایت کرتا رہا ہے۔
اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی ایلچی برائے امن، لخدر براہیمی کا کہنا ہے کہ آئندہ ماہ ہونے والے’ شام امن اجلاس‘ میں 26 ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے، لیکن امریکہ نے ایران کو شریک ہونے سے روک دیا ہے۔

براہیمی نے کہا ہے کہ امریکہ اس بات سے مطمئن نہیں ہے کہ ایران کی شرکت ’درست فیصلہ ہوگا‘۔

ایران تقریباً تین برس پرانے تنازع میں حکومتِ شام کی حمایت کرتا رہا ہے۔

براہیمی نے یہ بات جمعے کے دِن امریکی اور روسی وفود کے ساتھ ملاقات کے بعد کہی، جس کا مقصد یہ طے کرنا تھا کہ شام امن اجلاس میں شرکت کے لیے کِن ممالک کو مدعو کیا جانا چاہیئے، جس کا 22 جنوری سے سوٹزرلینڈ کے شہر، مونٹرو میں افتتاح ہونےوالا ہے۔

اس کانفرنس میں کچھ ماہ کی تاخیر اس لیے ہوئی کہ یہ سوال حل طلب تھا کہ شام کی اپوزیشن اور حکومت کی نمائندگی کون کرے گا، اور میز پر کونسے علاقائی ممالک شریک ہوں گے۔

اِن مذاکرات کا مقصد یہ ہے حکومت اور حزب مخالف کسی تصفیہ تک پہنچ سکیں کہ عبوری حکومت میں کون شریک ہو، جس کے پاس مکمل انتظامی اختیارات ہوں گے۔

جمے کے روز ہونے والی اِس ملاقات کے بعد، براہیمی نے شام کی حکومت پر بھی زور دیا کہ وہ سویلنز پر بم حملے بند کرے اور شامی اپوزیشن تمام قیدیوں کو رہا کرے، جس میں بچے بھی شامل ہیں۔

یہ ملاقات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے بیان کے مسودے کو روس کی طرف سے منظور ہونے سے روکے جانے کے ایک ہی دِن بعد ہوئی، جس میں حالیہ دِنوں کے دوران شام کی حکومت کی طرف سے سویلینز پر میزائل اور ’بیرل بم‘ حملوں کی مذمت کی جانی تھی۔

شام میں جاری لڑائی میں اب تک 100000سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ لاکھوں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔