بن غازی حملہ آور مغرب مخالف نظریات کے زیر اثر تھا: استغاثہ

اسکیچ

وکلائے استغاثہ نے کہا ہے کہ ابو خطالہ ’انصار الشریعہ‘ کا ایک کمانڈر تھا، جو لیبیا کی انتہا پسند ملیشیا ہے، جسے امریکہ نے پہلے ہی ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے

امریکی وکلائے استغاثہ کا کہنا ہے کہ شدت پسند جس پر2012ء میں لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی چوکیوں پر مہلک حملوں کا الزام ہے، وہ مغرب مخالف انتہا پسند جذبات سے مغلوب تھا۔

اُن کی حراست کے معاملے پر بدھ کو واشنگٹن میں سماعت ہوئی، جس دوران امریکی حکام نے مشتبہ شخص، احمد ابو خطالہ کے خلاف الزامات کی تفصیل پیش کی۔

امریکی فوجی کمانڈوز نےاُنھیں گذشتہ ماہ بن غازی کے قریب کی جانے والی کارروائی میں پکڑ لیا تھا اور اُن پر اس دہشت گرد حملے میں ملوث ہونے کا الزام ہے، جس میں امریکی سفیر کرسٹوفر اسٹیونز اور دیگر تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ایسے میں جب تیز رفتار موٹر گاڑیوں کے قافلےمیں ابو خطالہ کوحراست میں لیے جانے کے معاملے کی سماعت والی ایک وفاقی عدالت کی طرف لایا جا رہا تھا، جو امریکی پارلیمان سے چند ہی بلاک کے فاصلے پر واقع ہے، واشنگٹن کی سڑکوں پر بھاری مسلح سکیورٹی عہدے دار پہرہ دے رہے تھے۔

ابو خطالہ کے اٹارنی نے اُن کی حراست پر کوئی نکتہ اعتراض نہیں اٹھایا، ایسے میں جب وہ مقدمے کا انتظار کر رہے ہیں۔ تینتالیس برس کے لیبیائی شخص نے ہیڈفونز کی مدد سے مختصر عدالتی کارروائی سنی، ایسے میں جب ایک مترجم عربی میں ترجمہ کر رہا تھا۔

عدالت میں دائر مقدمے میں استغاثہ کے وکلا نے ابو خطالہ کی رہائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ لیبیا سے تعلق رکھنے والا یہ 43 برس کا شخص ’انتہا پسند نظریات‘ سے مرعوب تھا۔ ابو خطالہ کو پہلی بار ہفتے کے دِن ایک امریکی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ اُنھوں نے اقبال جرم سے انکار کیا۔

استغاثہ کا کہنا ہے کہ 11 ستمبر 2012ء کے حملے سے کچھ ہی روز قبل، ابو خطالہ نے ’بن غازی میں امریکی تنصیب کی موجودگی پر اپنی تشویش اور مخالفت پر آواز بلند کی تھی‘۔ وکلائے استغاثہ نے کہا ہے کہ وہ ’انصار الشریعہ‘ کا ایک کمانڈر تھا، جو لیبیا کی انتہا پسند ملیشیا ہے، جسے امریکہ نے پہلے ہی ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

استغاثے نے کہا ہے کہ وہ اُن 20 یا زیادہ افراد میں شامل تھے جو اے کے 47 قسم کی رائیفلوں، ہنڈگنز اور راکٹ اور گرینیڈ لانچرز سے مسلح تھے، جنھوں نے سب سے پہلے امریکی قونصل خانے پر حملہ کیا اور اُسے نذر آتش کیا۔ امریکہ نے الزام لگایا ہے کہ بعد میں شدت پسندوں نے قریبی واقع سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کی چوکی پر حملہ کیا۔

امریکی تفتیش کاروں نے حملے کے بارے میں ابو خطالہ سے اُس وقت پوچھ گچھ کی تھی جب اُنھیں بحریہ کے جنگی جہاز پر امریکہ لایا جارہا تھا۔ بعد میں گذشتہ اختتام ہفتہ ہونے والی عدالتی پیشی کے لیے اُنھیں ہوائی جہاز سے واشنگٹن لایا گیا اور اب وہ واشنگٹن کے قریب ہی ایک قیدخانے میں بند ہیں۔


امریکی سیاست میں اس حملے کی تفاصیل نے مخالفانہ جذبات ابھارنے کا کردار ادا کیا۔ ابتدائی طور پر اوباما انتظامیہ نے کہا تھا کہ بن غازی حملہ انٹرنیٹ پر مسلمان مخالف وڈیو کے خلاف ہونے والے مظاہروں کا نتیجہ تھا، جو 2001ء میں امریکہ کے خلاف ہونے والے دہشت گرد حملوں کی برسی کے موقعے پر ہوئے جن میں تقریباً 3000افراد ہلاک ہوئے تھے۔

تاہم، حکام نے بعدازاں اِسے ایک دہشت گرد حملہ قرار دیا۔

یہ حملہ اس وقت ہوا جب صدر براک اوباما کے دوبارہ انتخاب میں دو ہی ماہ باقی تھے۔

ریپبلیکنز نے دعویٰ کیا کہ مسٹر اوباما نے جان بوجھ کر اس حملے کو دہشت گردی قرار نہیں دیا تاکہ اُن کے دوبارہ انتخاب میں نقصان دہ ثابت نہ ہو۔ حملے سے متعلق کانگریس کی کئی ایک سماعتیں ہو چکی ہیں، جب کہ آئندہ ہفتوں کے دوران ایک اور سماعت ہونے والی ہے۔