امریکہ کی حمایت یافتہ شامی کرد فورسز کی رقہ کی طرف پیش قدمی

شام کا رقہ شہر شدت پسند گروپ  کا گڑھ ہے اور داعش تین سال سے یہاں قابض ہے۔

شام میں جنگ کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ امریکہ کی حمایت یافتہ شامی کرد فورسز نے رقہ کے نواح میں داعش کے انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی تیز کر دی ہے۔

رقہ شہر شدت پسند گروپ کا گڑھ ہے جہاں داعش نے تین سال قبل قبضہ کیا تھا۔

'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے ایک سرگرم کارکن نے کہا کہ امریکہ کی حمایت یافتہ شامی ڈیموکریٹک فورسز پیش قدمی کرتے ہوئے رقہ سے چار کلومیٹر دور پہنچ گئی ہیں اور شہر کے شمال میں واقع کئی مقامات پر لڑائی جاری ہے۔

ایس ڈی ایف کے ترجمان نے جمعہ کو گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ کئی ماہ کے دوران قلعہ بند شمالی شہر میں عسکریت پسندوں کے خلاف ممکنہ طور پر بھر پور کارروائی کی جاسکتی ہے۔

رقہ کو واگزار کروانے کے لیے تشکیل دیئے گئے ڈھیلے ڈھالے اتحاد میں شمال سے حملے کرنے والی ایس ڈی ایف اور شامی فورس جسے شیعہ ملیشیا اور روس کی حمایت حاصل ہے جنوب سے شہر کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں۔

شام میں لڑائی میں سنی عرب اور ترکمان ملیشیا کے ساتھ ساتھ ترکی کی حمایت یافتہ فورسز ایک الگ دھڑا بھی سرگرم ہے جو امریکہ کی حمایت یافتہ شامی ڈیموکریٹک فورسز میں شامل کرد جنگجوؤں کے دھڑے کے خلاف ہے۔

شدت پسند گروپ داعش کے مخالف مختلف دھڑوں پر مشتمل اتحاد کے اندرونی تنازعات کو اب تک امریکی، ترک اور روسی فوجی کمانڈروں کی خاموش سفارت کاری سے حل کیا جارہا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بدھ کو کرد فورس کو بھاری ہتھیار فراہم کرنے کے اعلان کے بعد رقہ کو واگزار کروانے کی کارروائی میں شدت نظر آرہی ہے۔

ترکی نے اس فیصلے کہ سخت مخالفت کی اور اس کا موقف ہے کہ ایس ڈی ایف میں شامل شامی کرد ملیشیا جو 'وائی پی جی' کے نام سے معروف ہے وہ کالعدم پی کے کے 'کردستان ورکرز پارٹی' کے ساتھ منسلک ہے ۔

ترک راہنما اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ ایس ڈی ایف کی طرف سے استعمال کیے جانے والی کسی قسم کے بھاری ہتھیار بالآخر 'پی کے کے' کے ہاتھ لگ سکتے ہیں جو گزشتہ تین دہائیوں سے ترکی کے جنوب مشرق میں ایک خود مختار خطے کے حصول کے لیے ترک فورسز کے خلاف برسر پیکار ہیں۔