امریکہ وزیر خارجہ و دفاع مذاکرات کے لیے آسٹریلیا میں

امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع دونوں ملکوں کے درمیان دفاع اور سائبر سکیورٹی کے شعبوں میں تعاون پر آسٹریلیا کے عہدیداروں سے بات چیت کریں گے۔

امریکی وزارت خارجہ کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ امریکہ اس بات پر غور کر رہا ہے کہ بحیرہ جنوبی چین میں ’’کشیدگی کم کرنے کے لیے (کیا) اقدامات‘‘ کیے جا رہے ہیں۔

یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب اتوار ہی کو بیجنگ کی طرف سے متنازع سمندری حدود میں کارروائی سے متعلق واشنگٹن کے دباؤ کو رد کیا گیا اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور وزیر دفاع چیک ہیگل آسٹریلیا کے دورے پر ہیں۔

جہاں وہ دونوں ملکوں کے درمیان دفاع اور سائبر سیکورٹی کے شعبوں میں تعاون پر بات چیت کریں گے۔

امریکہ کی جانب سے بحیرہ جنوبی چین میں کسی جارحانہ کارروائی پر پابندی عائد کرنے کی تجویز پر چین اور کچھ جنوب مشرقی ملکوں کی طرف سے سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا، جو کہ چین کی مبینہ تحکمانہ اقدام کو روکنے کی واشنگٹن کی کوششوں کے لیے دھچکا گردانا جا رہا ہے۔

ایک امریکی عہدیدار کا صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا ’’فوری طور پر تو آسیان اور چین کے درمیان آئندہ ہفتوں میں متوقع اجلاس پر غور کیا جائے گا اور اعلیٰ عہدیدار بات کریں گے کہ پابندی کے مساوی اور کیا ہونا چاہیئے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ بحیرہ جنوبی چین میں ’’اصل‘‘ صورت حال کا بھی مشاہدہ کیا جائے گا۔

چین کی سرکاری خبررساں ایجنسی ژنہوا کا کہنا تھا کہ واشنگٹن فلپائن اور ویت نام جیسے ملکوں کے حوصلے بڑھا رہا ہے کہ وہ چین کے خلاف سخت موقف اپنائیں۔

حالیہ تناؤ میں اضافہ مئی میں دیکھا گیا جب چین نے سمندر میں اس مقام پر تیل نکالنے والی مشین لا کر کھڑی کر دی جس پر ویت نام کا دعویٰ ہے، کہ یہ اس کی حدود میں آتا ہے۔ امریکہ اور فلپائن کی تجاویز کا مقصد ان اقدامات کو روکنا تھا۔

اس تلخی کی وجہ سے آسیان کے ملکوں میں بھی تقسیم دیکھنے میں آئی اور اس متنازع علاقے پر دعویٰ کرنے والے ملک بھی چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تجارتی و سرمایہ کاری کے تعلقات کو خراب کرنے کو تیار نہیں۔

چین اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے علاقائی سطح پر اپنے خلاف کسی اقدام کو روکنے میں کامیاب رہا۔

امریکی وزیر دفاع نے سڈنی میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ کا موقف ابھی بھی یہ ہے کہ ایسے تنازعات بین الاقوامی قوانین کے تحت حل ہونے چاہیئں۔

آسٹریلیا ان ملکوں میں شامل تھا جنھوں نے گزشتہ ہفتے میانمار میں ہونے والے آسیان کے اجلاس میں امریکہ کی تجویز کی حمایت کی۔

آسٹریلوی وزیر خارجہ جولی بشپ جان کیری کے ساتھ وطن واپس آئے اور سڈنی میں جہاں وہ دونوں ملکوں کے درمیان وزرا کی سطح پر ہونے والے سالانہ مذاکرات کی میزبانی کریں گے، جس میں دفاع اور سکیورٹی تعاون کے ساتھ ساتھ عراق اور یوکرین سے متعلق اُمور بھی زیر بحث آئیں گے۔

صدر براک اوباما اور آسٹریلوی وزیراعظم ٹونی ایبٹ کے درمیان طے پائے جانے والے معاہدے پر وزرا دستخط کریں گے جس کے تحت قدرتی آفات میں امدادی سرگرمیوں سے متعلق مشترکہ مشقوں اور تربیت کے لیے امریکی میرینز آسٹریلیا میں تعینات کیے جا سکیں گے۔

مسٹر ہیگل کا کہنا تھا کہ اس سے ’ایشیا پیسیفک‘ میں باہمی تعاون میں اضافہ ہو گا۔

’’ہمارا یہاں مفاد ہے۔ ہم یہاں اپنے مفادات رکھیں گے، ہم پیسیفک کی طاقت ہیں۔‘‘

آسٹریلیا کے شہر ڈاروین میں تقریباً 1150 امریکی میرین تعینات ہیں توقع کی جا رہی ہے کہ اُن کی تعداد 2017ء تک 2500 تک پہنچ جائے گی۔

چین اسے علاقے میں اپنے بڑھتے ہونے سفارتکاری، عسکری اور سیاسی اثرورسوخ کو روکنے کی کوشش گردانتا ہے۔