عراق کی سکیورٹی فورسز نے کردوں کے زیر کنٹرول علاقے کرکوک میں اہم تنصیبات پر قبضہ کر لیا ہے اور کردش پیش مرگہ فورسز سے ہونے والی لڑائی کے بعد سرکاری فوج نے کرکوک کے داخلی اور خارجی راستوں کو بند کر دیا ہے۔
تیل کی دولت سے مالا مال کرکوک میں سرکاری فوجیں پیر کی صبح داخل ہوئی تھیں اور اُنھوں نے اس شہر کے ہوائی اڈے کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
اُدھر امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئیرٹ نے ایک بیان کہا کہ کرکوک کے اردگرد تشدد کی اطلاعات پر امریکہ کو تشویش ہے۔
ایک بیان میں ترجمان نے کہا کہ امریکہ صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور تمام فریقین سے کہا گیا کہ وہ پرامن رہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ مرکزی اور علاقائی حکومتوں کے درمیان عراقی آئین کے مطابق تمام متنازع علاقوں میں پرامن اور مشترکہ نظام کی حمایت کرتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئیرٹ نے کہا کہ ’’ہم کشیدگی میں کمی، مزید جھڑپوں ہونے سے روکنے اور مذاکرات کی حوصلہ افزائی کے لیے مرکزی اور علاقائی حکومتوں کے عہدیداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔‘‘
عراق کی فوج کی طرف سے کردوں کے زیر کنٹرول علاقے میں یہ کارروائی کردستان میں آزادی کے حق میں متنازع ریفرنڈم کے انعقاد کے ایک ماہ بعد شروع کی گئی۔
سرکاری فورسز کی پیش قدمی سے قبل اس علاقے سے بڑی تعداد میں لوگ شہر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
عراقی فوج کے اس اقدام کو گزشتہ ماہ کردوں کی طرف سے آزادی کے بارے میں ریفرنڈم کا رد عمل تصور کیا جا رہا ہے۔
عراقی وزیر اعظم حیدر عبادی نے ٹیلی ویژن پر پڑھے گئے ایک بیان میں پیش مرگہ مسلح افواج سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عراقی مسلح افواج کا حصہ بن کر وفاقی حکومت کے تحت خدمات انجام دیں۔
اُنہوں نے عراقی مسلح افواج کو حکم دیا کہ وہ کرکوک اور پیش مرگہ کی مقامی آبادی کے تعاون سے علاقے میں کنٹرول برقرار رکھیں۔
سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق عراقی افواج ٹوز خرماتو قصبے میں بھی داخل ہو گئی ہیں جہاں کردوں اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان جھڑپیں جاری رہی تھیں۔
امریکی افواج داعش کے خلاف لڑائی میں دونوں فریقین یعنی عراق کی وفاقی مسلح افواج اور کردوں کی پیش مرگہ افواج کے ساتھ قریبی تعاون کرتی آئی ہیں۔