افغان طالبان کے نمائندوں نے پیر کے روز امریکی عہدے داروں سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا مقصد افغانستان کی 17 برسوں پر محیط جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت پر زور دینا تھا۔
طالبان نے کہا ہے کہ سعودی عرب، پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے عہدے داروں نے بھی افغانستان میں 17 برسوں سے جاری جنگ کے خاتمے سے متعلق مذاکرات میں حصہ لیا۔ طالبان کا کہنا تھا کہ ان کا افغان حکومت کے نمائندوں سے بات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
ان مذاکرات کا اہتمام پاکستان نے متحدہ عرب امارات میں کیا تھا۔ تاہم جن عہدے داروں نے بات چیت میں حصہ لیا، ان میں سے کوئی بھی فوری طور تفصیلات بتانے کے لیے دستیاب نہیں تھا۔
طالبان اور پاکستانی عہدے داروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغان مفاہمت کے لیے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے مذاکرات میں امریکی ٹیم کی قیادت کی ، جب کہ مذاکرات کی میز پر پاکستان، افغانستان، سعودی عرب اور میزبان ملک متحدہ عرب امارات کے وفود بھی موجود تھے۔
طالبان کا افغان حکومت سے براہ راست بات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان کے نمائندوں نے صرف امریکی ٹیم سے بات چیت کی اور ان کا افغانستان کی یونٹی حکومت کے کسی رکن سے بات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے حالیہ مہینوں میں پاکستان پر اپنا دباؤ بڑھا دیا ہے جس میں لاکھوں ڈالر کی امداد کی معطلی بھی شامل ہے جس کے متعلق عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ اسلام آباد کی طالبان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی میں بے دلی ہے۔
پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنی بات چیت میں ایک عرصے سے یہ زور دیتا آیا ہے کہ أفغانستان میں اس کے حریف ملک بھارت کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اس کے لیے تشویش کا معاملہ ہے۔ پاکستان کے سیکیورٹی عہدے دار بھارتی انٹیلی جینس کے کارکنوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ أفغان سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی میں عسکریت پسندوں کی مدد کرتے ہیں۔ کابل اور نئی دہلی دونوں ہی اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔
دبئی میں ہونے والے یہ مذاكرات پچھلے مہینے ماسکو میں ہونے والی امن بات چیت کے بعد ہوئے ہیں۔ ان مذاكرات میں أفغان حکومت کے نمائندے شامل نہیں تھے۔
تین سال میں پہلی بار طالبان اور أفغان عہدے دار آمنے سامنے بیٹھے
پاکستان کے ایک سینیر عہدے دار نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ تین سال کے عرصے میں دبئی مذاكرات وہ پہلے مذاكرات ہیں جس میں أفغان حکومت کے عہدے دار اور أفغان حکومت کے نمائندے دونوں ہی امن بات چیت میں شریک ہیں۔
طالبان کی جانب سے أفغان حکومت کے عہدے داروں سے بات چیت سے انکار کے بیان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں پاکستانی عہدے دار کا کہنا تھا کہ دبئی میں ہونے والے اجلاس کا کبھی بھی یہ مقصد نہیں تھا کہ اس مرحلے پر کابل حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت ہو گی۔ ان دونوں کی ایک دوسرے کے سامنے موجودگی اعتماد بڑھانے کی جانب ایک قدم ہے۔
امریکہ کا پاکستان کی کوششوں کا خیرمقدم
محکمہ خارجہ کی ترجمان نے پیر کے روز وائس آف امریکہ کی جانب سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ تنازع کے خاتمے کی جانب بڑھنے کے لیے افغان مذاكرات کی حوصلہ افزائی امریکی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستانی حکومت کی طرف سے جنوبی ایشیا کی سلامتی اور استحكام کی جانب بڑھنے کے کسی بھی اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں جس میں طالبان، افغانستان کی حکومت اور دوسرے افغانوں کے درمیان بات چیت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا شامل ہے۔
ترجمان نے یہ بھی کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو لکھے گئے ایک حالیہ خط میں اس چیز پر زور دیا گیا ہے کہ افغان امن عمل میں پاکستان کی معاونت پاکستان اور امریکہ کی پائیدار شراکت داری میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
کیا بات چیت آگے بڑھ رہی ہے؟
امریکہ کی بفلو یونیورسٹی کے تجزیہ کار پروفیسر فیضان حق کا کہنا ہے کہ بات چیت یقیناً آگے بڑھ رہی ہے، کیونکہ امریکہ اس بات سے واقف ہے کہ کابل کی نیشنل یونٹی گورنمنٹ اس قابل نہیں ہے کہ وہ کسی پالیسی کو نافذ کر سکے یا اس پر مذاکرات کر سکے۔ ان کا دائرہ کار محدود ہے۔ اور وہ امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں یا کچھ لوگ انڈیا کا نام لیتے ہیں۔ دوسری جانب طالبان نے جو اپنی مضبوط پوزیشن حاصل کی ہے، وہ اس سے بہت اچھی طرح واقف ہیں، اور وہ اسے کھونا نہیں چاہیں گے۔ تو ان کے نزدیک وہ ان سے بات نہیں کریں گے جو امریکہ کے لئے کام کرتے ہیں بلکہ امریکہ ہی سے بات کریں گے۔ تا کہ اس کا کوئی حل نکل سکے۔
پروفیسر حق کا کہنا تھا کہ میرا اپنا یہ خیال ہے کہ طالبان بالآخر افغانستان کی حکومت سے بھی بات کریں گے، اور ایک حل نکلے گا، جس میں دونوں طرف کے لوگ شامل ہوں گے، کیونکہ بحرحال کابل کی حکومت چند شعبوں میں بہت اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ ان کے پاس انفراسٹرکچر بھی اور ان کے پاس سیکیورٹی فورسز بھی ہیں۔ تو میرا نہیں خیال کہ طالبان ان کو انڈر ایسٹی میٹ کریں۔
امریکی دفترِ خارجہ کا پاکستان کے متعلق مثبت بیان کیا معنی رکھتا ہے؟
پروفیسر فیضاں حق نے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں تھوڑی سی بہتری آئی ہے، اور وہ بہتری اسی وجہ سے آئی ہے کہ دونوں جانب کچھ معاملات سمجھے جا چکے ہیں کہ ہمارا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ پاکستان کی جانب سے یہ ایک پرانا مشورہ تھا کہ طالبان کو ساتھ بٹھایا جائے۔ حقیقت پسندی پر مبنی امریکہ کے پالیسی سازوں نے بھی یہ بات ہمیشہ کہی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ایک خوش آئندہ بات ہے۔ لیکن بیس سال بعد اس مقام پر پہنچنا، اور وہیں سے چلنا شروع کرنا جہاں سے ہمیں بہت پہلے چلنا چاہئیے تھا، وہ ایک مشکل مقام ہو گا، لیکن میرا خیال ہے کہ آنے والے حالات میں ہم دیکھیں گے کہ پاکستان اور امریکہ کے حالات بہت بہتر ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ اتنی سرد مہری کے باوجود ایک مثبت بیان آئے، اور اس میں امریکہ پاکستان کو یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ پاکستان کا اس پر سنجیدگی سے کام کرنا بہت ضروری ہے۔ اور ہم نے دیکھا کہ کئی دفعہ پاکستان کی طرف سے وہ سنجیدگی نہیں دکھائی گئی یا بات کو نہیں سمجھا گیا کہ امریکہ اس بارے میں کتنا سنجیدہ ہے کہ افغانستان کے حالات بہتر ہوں۔
اس سے قبل خبروں میں بتایا گیا تھا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان بات چیت متحدہ عرب امارات میں ہورہی ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے پیر کو ٹوئٹر پر ایک مختصر بیان میں اس بات چیت کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بین الاقوامی برداری اور دیگر فریقین کے ساتھ افغانستان میں امن و مصالحت کے پر پرعزم ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان فیصل نے کہا کہ یہ مذاکرات متحدہ عرب امارت میں ہورہے ہیں اور پاکستان یہ توقع کرتا ہے کہ ان مذاکرات سے افغانستان میں قتل و غارت کا خاتمہ ہو گا اور خطے میں امن آئے گا۔
دوسری طرف خبررساں ادارے ایسوسی ایٹد پریس نے طالبان کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکہ کے ساتھ آج (پیر کو ) دبئی میں ہونے والی ملاقات میں طالبان کے علاوہ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے نمائندے بھی شریک ہوں گے تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنی ٹویٹ میں مزید تفصیل فراہم نہیں کی ہے۔
افغانستان کے سرکاری خبررساں ادارے کے ڈائریکٹر نے بھی اس اجلاس کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے اپنے ْٹوئٹر پر کہا ہے کہ ’پاکستان کی کوششوں سے امریکہ اور طالبان‘ کے مذکرات سے پہلے امریکہ، افغانستان ، پاکستان، اور متحدہ عرب امارات کے عہدیدار وں نے اتوار کو ملاقات کی ہے۔
افغانستان کی وزارت خارجہ نے اطلاعات کے مطابق کہا ہے کہ متحدہ عرب میں ہونے والے مذاکرات پاکستان کی طرف سے افغان امن و مصالحت کی کوششوں کی سلسلے میں پہلا ٹھوس عملی اقدام ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے ایک یبان میں کہا تھا کہ پاکستان نے امریکہ کی افغان طالبان سے بات کروا دی ہے اور پاکستان کے تعاون سے‘‘ امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت 17 (دسمبر ) کو ہو گی ہوگی‘‘
افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے تشکیل دی گئی ہائی پیس کونسل کے رکن عبدالحکیم مجاہد نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ طالبان کے نمائندوں سے بات چیت اعتماد سازی کے لیے اہم ہے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ نے قبل ازیں ہونے والے بات چیت کی نا تو تصدیق کی ہے نا ہی ان کا انکار کیا ہے تاہم امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے افغان تنازع کے حل کے لیے مختلف فریقوں سے بات چیت کی تھی۔
خلیل زاد قطر کے دارالحکومت دوحا میں طالبان کے ساتھ دو بار ملاقا ت کر چکے ہیں جو اطلاعات کے مطابق ابتدائی بات چیت تھی جن کے بارے مین واشنگٹن اس توقع کا اظہار کر چکا ہے کہ یہ رابطے افغانستان میں قیام امن کے روڈ میپ کے لیے ٹھوس بات چیت کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔
رواں ماہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کےنام لکھے گئے خط میں افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے تعاون کی درخواست کی تھی۔ جس کے بعد خلیل زاد نے اسلام آباد دورہ کیا اور وزیراعظم عمران خان اور پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تھی۔
افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں یہ مذاکرات ایک ایسے وقت ہور ہے ہیں جب چین، پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں سرگرم ہے اسی سلسلے میں ہفتے کو کابل میں افغانستان، چین اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کا ایک سہ فریقی اجلاس کابل میں ہوا جس دوران چین نے اسلام آباد اور کابل کےمابین اعتماد کے فقدان کو دور کرنے کے عزم اظہار کیا ہے۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ سے ملاقات میں افغانستان میں طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کی کوششوں کی حمایت کا طریقہ کار وضح کرنے کے بار ے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔