امریکہ اور دیگر 13 ملکوں نے عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے کرونا وبا کے ماخذ سے متعلق جاری کردہ حالیہ رپورٹ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے منگل کو اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کیا ہے جس میں دیگر 13 ملکوں کے حکام کے دستخط بھی موجود ہیں۔ ان ملکوں نے مشترکہ بیان میں ڈبلیو ایچ او کی حالیہ رپورٹ پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی ابتدا کے بارے میں عالمی ماہرین کی رائے بہت تاخیر سے سامنے آئی ہے جب کہ ماہرین کو تحقیقات کے لیے ملنے والی مکمل رسائی، اصل ڈیٹا اور سیمپلز پر تحفظات ہیں۔
یاد رہے کہ کرونا وائرس کی ابتدا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چین کے شہر ووہان کی ایک جانوروں کی مارکیٹ سے پھیلا تھا۔
تاہم ڈبلیو ایچ او نے گزشتہ ہفتے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ دستیاب شواہد اور ڈیٹا کو پرکھنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انہیں اب تک کرونا وائرس کے ماخذ کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلا۔
SEE ALSO: کرونا وائرس کا سراغ: عالمی ادارہ صحت کی ٹیم کا ووہان کا دورہکرونا وائرس کے ماخذ کی تحقیقات کے لیے ڈبلیو ایچ او کی ٹیم نے رواں برس کے آغاز میں چین کے شہر ووہان کا دورہ کیا تھا۔ جہاں ٹیم میں شامل ارکان نے ووہان میں جانوروں کی مارکیٹ کے دورے کے علاوہ سائنس دانوں اور دیگر ماہرین کے انٹرویوز بھی کیے تھے۔
اطلاعات تھیں کہ ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کو چین میں ڈیٹا تک رسائی سمیت دیگر مشکلات کا سامنا بھی رہا۔ محققین پر مشتمل ٹیم کو ووہان جانے سے قبل چین کی حکومت کی جانب سے اجازت نامے کے لیے بھی انتظار کرنا پڑا تھا۔
امریکہ اور دیگر 13 ملکوں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ سائنسی مشن کو ایسے ماحول میں کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے جس کے نتیجے میں آزادانہ نتائج اور تجاویز سامنے آ سکیں۔
مذکورہ ممالک نے ڈبلیو ایچ او کے کرونا وائرس کے ماخذ کی حالیہ تحقیقات کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ کسی بحران کی صورت میں اس سے نمٹنے کی امید پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ کے علاوہ جن دیگر ملکوں نے ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے ان میں آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، ڈنمارک، جاپان، اسرائیل، اسٹونیا، چیک ری پبلک، لٹیویا، ناروے، ری پبلک آف کوریا، سلووینیا اور لتھونیا شامل ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس گیبراسس نے منگل کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ کرونا وائرس کسی فوڈ چین سے انسان میں پھیلا یا کسی جانور کے ذریعے، اس بارے میں مزید تحقیقات اور مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ چین کی لیبارٹری سے وائرس پھیلنا صرف خیالی تصور ہے اور کچھ نہیں، تاہم اس معاملے کی بھی مزید تحقیقات درکار ہے۔
SEE ALSO: کرونا وائرس کا ہر 10 میں سے ایک مریض تین ماہ کے بعد بھی بیمار ہے: عالمی ادارۂ صحتیاد رہے کہ دنیا بھر میں جب کرونا وائرس پھیل رہا تھا تو اس وقت وبا کے پھیلاؤ سے متعلق مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔ یہ بات بھی کی جانے لگی تھی کہ چین کی ایک لیبارٹری میں تجربے کے دوران یہ وبا پھیلی جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ڈبلیو ایچ او کی کرونا پر تحقیقات کرنے والی ٹیم کے سربراہ بین ایمبارک نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ یہ ممکن ہے کہ کرونا وائرس کے کیسز نومبر یا اکتوبر 2019 سے قبل ووہان میں موجود ہوں۔