سودا ایک غزل گو شاعرکی حیثیت سے

سودا

اردو قصیدہ نگاری میں جو منفرد اور بلند مقام سودا کو حاصل ہوا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا

کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا

ساغر کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

ایک افغان تاجر کا بیٹا،جمع تفریق کے ماحول میں تخیل کے گھوڑے دوڑاتا اور بقول آتش مرصع سازی میں نام پیدا کرتا ہے۔ اردو قصیدہ نگاری میں جو منفرد اور بلند مقام سودا کو حاصل ہوا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔سوداکی طبیت اور مزاج سے یہ صنف گہری مناسبت رکھتی تھی،تمام نقادوں نے ان کی قصیدہ نگاری کو سراہا ہے۔

سودا ایک قادرالکلام شاعر تھے انہوں نے غزل بھی کہی اور اس میں ان کا مقام سطحی اور معمولی نہیں ہے،وہ چونکہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے سو زندگی عیش و طرب میں گزرتی تھی امیروں کی صحبتیں میسر تھیں اس لیے کسی کے عشق جانگداز میں میر کی طرح آنسو نہیں بہائے،ان کے کلام میں سوزوگداز،درد،غم کی گہری ٹیسیں اور خستگی تو نہیں جو میر کی غزلوں کا خاصا ہے اس کے باوجود سودا کی غزل جاندار ہے۔

سودا جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ

کیا جانیئے تو نے اسے کس آن میں دیکھا

سودا نے مروجہ شعری رنگوں کو کامیابی سے نبھایا ہے،سنگلاخ زمینوں میں شعر کہنا، مشکل قافیوں اور ردیفوں کو باندھنا ، صنائع بدائع کا فنکارانہ استعمال ان کی غزلوں میں عام ہے،شوکت الفاظ و خیال،لہجے کی بلند آہنگی جیسی قصیدے کی خصوصیات ان کی غزلوں کو منفرد بناتی ہیں،ان کے ہاں عشق و محبت ،ہجر و وصال اور داخلیت کا حسین امتزاج ملتا ہے ۔

جس روز کسی اور پے بیداد کرو گے

یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے

۔۔۔۔۔۔

دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں

کچھ علاج اس کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں

۔۔۔۔۔

عشق سے تو نہیں ہوںمیں واقف

دل کو شعلہ سا کچھ لپٹتا ہے

سودا کا نام مرزا محمد رفیع اور سودا تخلص تھا ،ان کے والد کابل سے تجارت کی غرض سے دہلی آئے اور یہیں کے ہو رہے۔کاروبار کافی اچھا تھا اسی لیے فارغ البالی کی زندگی بسر کی۔شاعری کا ذوق فطری تھا ،شروع شروع میں فارسی میں طبع آزمائی کی مگر جلد ہی اردو کی طرف متوجہ ہو گئے۔سودا نے پہلے پہل سلیمان قلی خان سے اصلاح لی بعد میں شاہ حاتم کے شاگرد ہوئے پھر خان آرزو کی صحبت سے بھی فائدہ اٹھایا، کئی بادشاہوں اور رؤسا کے ہاں ان کا آنا جانا تھا خوب قدرو منزلت بھی ہوتی تھی۔

احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کے حملوں سے دہلی تباہ ہو گئی تو سودا فرخ آباد میں نواب خان رند کے پاس چلے گئے چار سال بعد لکھنؤ میں آصف الدولہ کے ہاں منتقل ہو گئے ان کی زندگی ابتدا سے آخر تک با فراغت بسر ہوئی ،لکھنؤ میں چھ ہزار سالانہ وظیفہ مقرر تھا ۔

قصیدے ،مرثیے ،مثنویاں،رباعیاں،شہر آشوب،قطعات،تاریخیں،پہیلیاں،واسوخت،مستزاد،ہجو۔کلیات اور غزلیں سب اصناف سودا کے ہاں موجود ہیں،فارسی نثر میں ایک رسالہ ’’تنبیہ الغافلین‘‘لکھا،ایک فارسی دیوان بھی یادگار ہے۔

سودا نے 27 جون 1781ء کو تقریباً70 برس کی عمر میں وفات پائی۔

تجھ قید سے دل ہو کر آزاد بہت رویا

لذت کو اسیری کی کر یاد بہت رویا

آڈیو ملاحظہ فرمائیے: