|
صدر جو بائیڈن نے اتوار کے روز وائٹ ہاؤس کے لیے اس سال نومبر میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے سے اپنی دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے۔ الیکشن کی دوڑ سے الگ ہونے کے اعلان کے تقریباً 30 منٹ بعد، بائیڈن نے نائب صدر کاملا ہیریس کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا۔
ائیڈن نے مختصر پیغامات کے پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کیے جانے والے اپنے ایک خط میں کہا ہے کہ ِ "آپ کے صدر کے طور پر خدمات انجام دینا میری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز رہا ہے۔ اوراگرچہ میرا یہ پختہ ارادہ رہا تھا کہ میں اس عہدے کے لیے دوبارہ منتخب ہو جاؤں، مجھے یقین ہے کہ میری پارٹی اور ملک کے بہترین مفاد میں ہے کہ میں صدارتی دوڑ سے دستبردار ہو جاؤں اور اپنے عہدے کی باقی مدت کے لیے بطور صدر اپنے فرائض کی ادا ئیگی پر توجہ مرکوز کروں۔"
الیکشن کی دوڑ سے الگ ہونے کے اعلان کے تقریباً 30 منٹ بعد، بائیڈن نے نائب صدر کاملا ہیریس کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا جو شکاگو میں اگست کے ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں نامزدگی کے لیے پارٹی کی پسندیدہ تھیں۔
“صدر نے لکھا، “آج میں کاملا کی اس سال ہماری پارٹی کی نامزدگی کے لیے اپنی مکمل حمایت اور توثیق کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ اب وقت آگیا ہےکہ ڈیموکریٹس متحد ہوں اور ٹرمپ کو شکست دیں۔”
تاہم صدر کی جانب سے خمایت کا مطلب نامزدگی نہیں ہے۔ اب ڈیموکریٹس کو فوری طور پر چند ہفتوں کے اندر صدارتی نامزدگی کے عمل میں ہم آہنگی لانے کی کوشش کرنا ہو گی۔ اور اتفاق رائے سے ایک نئے امیدوار کو نامد کرنا ہوگا۔
بائیڈن کی مدت صدارت جو 20 جنوری 2025 کی دوپہر کو ختم ہو رہی ہے، وہ اسےپوری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس معاملے سے واقف افراد کے مطابق، سینئر مہم اور وائٹ ہاؤس کے عملے کو خط کے باہر جانے سے چند منٹ قبل مطلع کیا گیا تھا۔ بائیڈن پچھلے دو دنوں سے اپنے مستقبل پر غور کر رہے تھے اور فیصلہ قریب سے منعقد کیا گیا تھا۔
یہ اعلان وائٹ ہاؤس کے حصول کی انتخابی مہم چلانے والوں کے لیے تازہ ترین دھماکہ ہے، جسے دونوں سیاسی جماعتیں کئی نسلوں میں ہونے والے سب سے زیادہ نتیجہ خیز انتخابات کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ اس سے ایک ہفتہ قبل پنسلوینیا کے ایک قصبے میں ریپبلکنز کی ایک ریلی میں ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کا واقعہ رونما ہو چکا ہے۔
بائیڈن نے اس فیصلے کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب وہ گزشتہ ہفتے کوویڈ۔19 کی تشخیص ہونے کے بعد ڈیلاویئر کے اپنے بیچ ہاؤس میں قرنطینہ میں رہ رہے ہیں اور اپنے خاندان اور قریبی ساتھیوں کے مختصر حلقے کے ساتھ اپنے سیاسی مسقتبل کے بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں۔
بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ اس ہفتے کے آخر میں اپنے فیصلے کے متعلق تفصیل سے بتانے کے لیے قوم سے خطاب کریں گے۔۔
نصف صدی کے اس سفر میں وہ سینٹ، پھر نائب صدر کے عہدے اور پھر وائٹ ہاؤس تک پہنچے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی سیاست کا سفر تصاویر کے آئینے میں
نئے امیدوار کی نامزدگی
اس سے قبل کسی بھی سیاسی پارٹی کا امکانی امیدوار ایسے میں کبھی انتخابی مہم دوڑ سے الگ نہیں ہوا جب الیکشن میں اتنا کم وقت باقی رہ گیا ہو۔ اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ 1968 کا ہے جب صدر لنڈن بھی جانسن نے ویت نام جنگ کی صورت حال کے باعث مارچ میں ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ اپنے عہدے کی دوسری مدت کے لیے الیکشن نہیں لڑیں گے۔
اب ڈیموکریٹس کو فوری طور پر چند ہفتوں کے اندر صدارتی نامزدگی کے عمل میں ہم آہنگی لانے کی کوشش کرنا ہو گی اور الیکشن میں باقی رہ جانے والے محدود وقت میں ووٹروں کو قائل کرنا ہو گا کہ ان کا نامزد امیدوار صورت حال کو سنبھالنے اور ٹرمپ کو شکست دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اور دوسری جانب ٹرمپ کو، جن کی مہم برسوں سے بائیڈن پر مرکوز رہی ہیں، ایک نئے مخالف کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنی ہو گی۔
کاملا ہیرس
کاملا ہیرس جن کی عمر 59 سال ہے، بظاہربائیڈن کی فظری جانشین نظر آتی ہیں ، جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ وہ واحد ایسی امیدوار ہیں جو وفاقی مہم کے مالیاتی قوانین کے مطابق، بائیڈن کی انتخابی مہم کے وسائل استعمال کر سکتی ہیں۔
بائیڈن کی حمایت ہیرس کے لیے راستہ ہموار کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے، لیکن اس کے باوجود نامزدگی کی ہموار انداز میں منتقلی کی یقین دہانی کسی بھی طرح سے یقینی نہیں ہے۔
ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن 19 سے 22 اگست کے دوران شکاگو میں ہونے والا ہے، لیکن پارٹی نے اعلان کیا تھا کہ وہ (اس وقت) بائیڈن کی باضابطہ نامزدگی کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے رابطے کی ایک ورچوئل تقریب کرے گی۔
ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا دیگر امیدوار کاملا ہیرس کی نامزدگی کو چیلنج کریں گے یا پھر ڈیموکریٹک پارٹی کو کنونشن کے پلیٹ فارم پر صدارتی امیدوار کے طور پر ہیرس کی نامزدگی کے لیے دوبارہ اپنے قوانین میں کس طرح مطابقت لا سکتی ہے۔
SEE ALSO: صدر بائیڈن سے صدارتی دوڑ سے دستبرداری کی اپیل ڈیموکریٹک رہنماؤں نے مسترد کر دیصدارتی دوڑ سے دست برداری کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں انتخابی سیاست میں بائیڈن کے 52 برسوں کے سفر کے تیز تر اور حیرت انگیز اختتام کی نشاندہی کرتا ہے، جب عطیہ دہندگان، قانون ساز اور حتیٰ کہ ان کے معاون اس بارے میں شکوک و شہبات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ وہ ووٹروں کو اس بارے میں قائل کر سکیں گے کہ بائیڈن مزید چار سال تک صدارتی امور کو خوش اسلوبی سے نبھا سکتے ہیں۔
صدارتی نامزدگی جیتنے کی مہم میں بائیڈن نامزدگی کے ہر مقابلے میں کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ اپنے لیے مندوبین کی اکثریت حاصل کر لی تھی۔ اب نئی صورت حال میں بائیڈن کی دستبرداری کے بعد ان کے مندوبین کسی دوسرے امیدوار کی حمایت کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔
SEE ALSO: امریکی انتخابات: صدر بائیڈن کی امید واریصدر بائیڈن کے فیصلے پر ردعمل
ٹرمپ کی انتخابی مہم نے بائیڈن کی جانب سے صدارتی دوڑ سے نکلنے کے فیصلے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا، لیکن ٹرمپ اور ان کی ٹیم بائیڈن کا سامنا کرنے کی اپنی ترجیح واضح کر دی تھی۔ تاہم ان کی ٹیم بائیڈن پر صدارتی دوڑ سے باہر نکلنے کے لیے دباؤ بڑھنے پر ہیریس پر اپنے حملے تیز کر چکی ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے عہدے داروں سمیت بہت سے ان لوگوں نے، جو بائیڈن کے انتخابی دوڑ سے دستبردار ہونے یر اصرار میں شامل تھے، انہوں نےفوری طور پر بائیڈن کے اس فیصلے کی تعریف میں بیانات جاری کیے ہیں۔
نیویارک سے ڈیموکریٹ سینیٹر اور سینیٹ کےاکثریتی رہنما چک شومر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’یہ فیصلہ یقیناً ان کے لیے آسان نہیں تھا، لیکن انہوں نے ایک بار پھر اپنے ملک، اپنی پارٹی اور ہمارے مستقبل کو اولیں ترجیح دی ہے، جو آج یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ(بائیڈن) ایک سچے محب وطن اور عظیم امریکی ہیں‘۔
ایوان نمائندگان کے ریپبلکن اسپیکر مائیک جانسن نے کہا ہے کہ اگر بائیڈن اس عہدے کے لیے انتخاب لڑنے کے قابل نہیں ہیں تو انہیں فوری طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ ’پانچ نومبر اتنی جلد نہیں آ سکتا‘۔
سن 2020 میں بائیڈن نے خود کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر پیش کیا تھا جو نئی نسل کے قائدین کے لیے ایک پل کے طور پر کام کرنا چاہتی تھی۔ لیکن جب انہوں نے یہ عہدہ حاصل کر لیا جس کے لیے انہوں نے عشروں تک جدو جہد کی تھی، تو وہ اسے چھوڑنے سے گریزاں تھے۔
بائیدن سے ایک بار پوچھا گیا تھا کہ آیا کوئی دوسرا ڈیموکریٹ ٹرمپ کو شکست دے سکتا ہے؟
تو ان کاکہنا تھا کہ شاید ان میں سے 50 لوگ ایسے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نہیں صرف میں ہی ایسا نہیں ہوں جو انہیں شکست دے سکے۔ لیکن میں انہیں شکست دوں گا۔
بائیڈن کی عمر اور صحت کے بارے میں خدشات
بائیڈن امریکہ کے سب سے معمر صدر ہیں اور وہ بار بار یہ اصرار کرتے رہے ہیں کہ وہ ایک اور انتخابی مہم اور ایک اور مدت حاصل کرنے کے چیلنج کے لیے تیار ہیں۔وہ تمام ووٹروں کو یہ بتاتے رہے ہیں کہ" وہ محض یہ دیکھیں جو انہوں نے کیا۔
صدارتی مباحثے میں ان کی ناقص کارکردگی نے ڈیموکریٹس اور عطیہ دہندگان میں ایک بے چینی کو جنم دیا اور انہوں نے کھلے عام وہ کچھ کہا جو وہ مہینوں سے نجی طور پر کہہ رہے تھے کہ انہیں نہیں لگتا کہ وہ مزید چار سال تک اس عہدے پر کام کے اہل ہیں۔
بائیڈن کی عمر سے منسلک خدشات اس وقت سے پریشانی کا سبب بن رہے ہیں جب انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ دوسری مدت کے لیے انتخاب میں حصہ لیں گے۔ اگرچہ ٹرمپ 78 سال کے ہیں اور عمر میں ان سے صرف تین سال چھوٹے ہیں۔
تاہم ایسوسی ایٹڈ پریس اور پبلک افیئرزریسرچ کے این او آرسی سینٹر کے اگست 2023 میں کرائے گئے رائے عامہ کے جائزے کے مطابق امریکیوں کی زیادہ تر تعداد بائیڈن کو صدارتی عہدے کی دوسری مدت کے لیے بہت بوڑھا سمجھتی ہے۔ جائزے میں حصہ لینے والوں کی اکثریت نے صدر کے طور پر ان کی ذہنی صلاحیت پر بھی شک کا اظہارکیا، اگرچہ یہ ٹرمپ کے حوالے سے بھی ایک کمزوری ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بائیڈن اکثر یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ اب اتنے جوان نہیں رہے جتنا کہ پہلے تھے۔ وہ نہ ہی اتنی آسانی چل سکتے ہیں اور نہ ہی اتنی روانی سے بول سکتے ہیں۔لیکن بقول انکے،ان کے پاس دانائی اور کئی عشروں کا تجربہ ہے، جو بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
انہوں نے پہلے صدارتی مباحثے کے ایک دن بعد نارتھ کیرولینا میں ایک ریلی میں اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ، ’میں آپ کو بائیڈن کے طور پر یہ زبان دیتا ہوں کہ میں اس مقابلےمیں شامل نہیں ہوتا اگر مجھے دل و جان کی گہرائیوں سے یقین نہ ہوتا کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں۔ کیونکہ سچی بات یہ ہے کہ بہت زیادہ داؤ پر لگا ہوا ہے۔
لیکن ووٹروں کو اس کے ساتھ دیگر مسائل کا بھی سامنا تھا۔ وہ ایک لیڈر کے طور پر بہت غیر مقبول رہے ہیں، اس کے باوجود کہ ان کی انتظامیہ نے عالمی وبائی مرض(کوویڈ۔19) سے بحالی میں پیش رفت کی، معیشت کو ترقی دی اور دونوں پارٹیوں کے اشتراک سے ایسےقانون منظور کرائے ، جس کے اثرات آئندہ برسوں تک قوم پر مرتب ہوتے رہیں گے۔لیکن امریکیوں کی اکثریت کام کرنے کے بائیڈن کے طریقہ کار کو ناپسند کرتی ہے اور انہیں مسلسل معیشت اور امیگریشن سمیت اہم مسائل پر کم قبولیت کا سامنا رہا ہے۔
خفیہ دستاویزات سے نمٹنے سے متعلق تحقیقات کے دوران بائیڈن کا معمر ہونا ایک اہم عنصر کے طور پر سامنے آیا۔ خصوصی وکیل رابرٹ ہور نے فروری میں کہا تھا کہ صدر تفتیش کاروں کے ساتھ اپنے انٹرویوز میں ایک ہمدرد، نیک نیت اور کمزور یاداشت والی ایک معمر شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
صدر کے حامیوں نے ان کے اس بیان کو بلاجواز قرار دیا اور اسے اپنی رپورٹ میں شامل کرنے پر رابرٹ ہر پر تنقید کی، اور بائیڈن نے خودبھی خفگی سے یہ بیان قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا جو اس حوالے بھی تھاکہ اس نے ان کے آنجہانی بیٹے کے بارے میں کیسے بات کی۔
بائیڈن کا انتخابی دوڑ میں شامل ہونے کا محرک ٹرمپ کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ وہ باراک أوباما کے تحت آٹھ سال تک نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے اور اپنے بیٹے بیو کی موت کے بعد عوامی خدمت سے ریٹائر ہو گئے تھے۔لیکن 2017 میں ورجینیا کے قصبے شارلٹس ول میں ’یونائٹ دی رائٹ‘ ریلی کے بعد ٹرمپ کے تبصروں کے بعد انہوں نے انتخاب لڑنے کا اس وقت فیصلہ کیا، جب سفید بالا دستی کے حامیوں نے کنفیڈریٹ کی یادگاروں کو ہٹانے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
ٹرمپ نے کہا تھا، ’آپ کے گروپ میں کچھ بہت برے لوگ تھے، لیکن آپ کے پاس ایسے لوگ بھی تھے جو دونوں جانب بہت اچھے لوگ تھے۔
اپنے عہدے پر موجود صدر نے واضح طور پر نسل پرستی کی مذمت نہیں کی۔ اور سفید فام بالا دستی نے بائیدن کو برہم کر دیا۔
اس کے بعد بائیڈن نے 2020 کا الیکشن جیت لیا اور ٹرمپ نے ان کی جیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اور وہ گھنٹوں تک اپنے ان حامیوں کی حمایت کرتے رہے جنہوں نے6 جنوری 2021 کو بائیڈن کی جیت کی توثیق کے عمل کو پلٹنے کی ناکام کوشش میں یو ایس کیپیٹل ہل پر دھاوا بوالا، قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کو مارا پیٹا اور خون بہایا۔
بائیڈن نے ایک بار اپنی انتخابی مہم میں کہا تھا کہ اگر ٹرمپ صدراتی دوڑ میں شامل نہ ہوتے تو میرا نہیں خیال کہ میں بھی الیکشن لڑ رہا ہوتا۔
خاتون اول اور بائیڈن کی پوتی کا ردعمل
بائیڈن کی اہلیہ، خاتون اول جِل بائیڈن نے صدر کے اعلان کا جواب، بائیڈن کے خط کو سرخ دل کے ایموجیز کے ساتھ دوبارہ پوسٹ کرنے کے ساتھ دیا۔
بائیڈن کی پوتی نومی بائیڈن نیل نے سوشل میڈیا پر کہا کہ مجھے اپنے ’پاپ‘ پر فخر ہے۔
نومی بائیڈن نیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملک کی خدمت کی ہے، اپنی روح کے ہر ٹکڑے اور بے مثال امتیاز کے ساتھ۔ اور یہ کہ ان کی وجہ سے آج ہماری دنیا بہت سے انداز سے بہتر ہے‘۔
ایک ایسے موقع پر جب کہ انتخابات میں اب محض چار مہینے باقی رہ گئے ہیں، بائیڈن کی صحت کے بارے میں شک و شہبات پیدا ہو گئے تھے اور ڈیموکریٹ پارٹی کے کئی رہنما اور ارکان کانگریس ان پر یہ زور دے رہے تھے کہ وہ صدارتی دوڑ سے نکل جائیں۔
بائیڈن پر وائٹ ہاؤس کے لیے دوڑ سے نکل جانے کے لیے دباؤ کا آغاز پچھلے مہینے اٹلانٹا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہونے والے پہلے صدارتی مباحثے میں ان کی کمزور کارکردگی کی بنا پر ہوا تھا۔
SEE ALSO: پانچ میں سے چار امریکیوں کو خدشہ ہے کہ ملک افراتفری کی طرف جا رہا ہے، سروےجو بائیڈن کے اتحادیوں کے لیے یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل تھی کہ وہ پہلے صدارتی مباحثے میں توانا نظر آئیں تاکہ 81 سالہ ڈیموکریٹ امیدوار کی جسمانی صحت اور ذہنی صلاحیت سے متعلق اٹھنے والے سوالات کی شدت میں کمی آئے۔
لیکن امریکی سیاست کے سب سے بڑے اسٹیج پر بائیڈن ان توقعات پر پورے نہیں اتر سکے۔
جب 90 منٹ طویل مباحثے کا اختتام ہوا تو صدر کے اتحادی، پارٹی کے حکمت عملی کے ماہریں اور ان کے عملے اور ووٹرز ان کی کارکردگی سے متعلق گھبراہٹ کا شکار تھے۔ مباحثے میں بائیڈن بار بار اٹکتے اور رکتے رہے اور ان کا اندازِ گفتگو بھی ایسا تھا جسے سمجھنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔
SEE ALSO: بائیڈن کا صدارتی مباحثے میں خراب کارکردگی کا اعتراف؛ انتخابی دوڑ میں رہنے کا عزمجس کے بعد سے نجی اور عام گفتگو میں ڈیموکریٹس نے یہ سوال اٹھانے شروع کر دیے کہ کیا پارٹی ٹرمپ کے مقابلے میں اپنا امیدوار تبدیل کرسکتی ہے یا اسے ایسا کرنا چاہیے۔
بائیڈن اپنے عہدے کی بقیہ مدت، جو 20 جنوری 2025 کی دوپہر کو ختم ہو رہی ہے، پوری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔
وی او اے نیوز کی رپورٹ۔