اتر پردیش میں لاؤڈ اسپیکر کے خلاف مہم، مسئلہ اذان ہے یا صوتی آلودگی؟

بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی حکومت کی جانب سے نوائز پولیوشن یا صوتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے چلائی جانے والی مہم کے دوران حکام کے مطابق گزشتہ پانچ روز میں 37 ہزار غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹائے جا چکے ہیں اور 42ہزار کی آواز کم کرکے مقررہ حد کے اندر محدود کی گئی۔

اترپردیش کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری (داخلہ) اونیش کمار اوستھی کے مطابق وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے حکم پر اس وقت پوری ریاست میں عبادت گاہوں سے غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹانے اور ان کی آواز کم کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیش تر لاؤڈ اسپیکرلکھنؤ اور گورکھ پور زون سے ہٹائے گئے ہیں۔

ان کے بقول یہ کارروائی کسی ایک خاص مذہب کی عبادت گاہوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں سے غیر قانونی لاؤڈ اسپیکرہٹائے جا رہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ ہفتے ریاست کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ایک اجلاس کرکے اس بارے میں صورت حال کا جائزہ لیا تھا اور متعلقہ حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ عبادت گاہوں سے غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ جن عبادت گاہوں پر لاؤڈ اسپیکر لگانے کی اجازت دی گئی ہے ان کی آواز عدالت کی طے کی گئی حدود کے اندر ہی ہو۔

سال 2018 میں بھی ریاستی حکومت نے ایسے احکامات جاری کیے تھے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ اور کئی ہائی کورٹس کی جانب سے بھی وقتاً فوقتاً لاؤڈ اسپیکرز کی آوازوں کو مقررہ حد کے اندر رکھنے کی ہدایات جاری کی جا چکی ہیں۔

حکومت کے مطابق یہ کارروائی تمام مذاہب کے ہزاروں پیشواؤں اور رہنماؤں سے مذاکرات کے بعد شروع کی گئی ہے۔یوپی حکومت کا دعویٰ ہے کہ مذہبی پیشواؤں نے اس مہم سے اتفاق کیا ہے۔

اذان اور ہنومان چالیسا

واضح رہے کہ بھارت کی ریاست مہاراشٹرا کی ایک سیاسی جماعت ’مہاراشٹرا نو نرمان سینا‘ (منسے) کے صدر راج ٹھاکرے نے گزشتہ دنوں لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر مئی کے پہلے ہفتے تک یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا تو مسجدوں کے باہر ہر اذان کے وقت لاؤڈ اسپیکر سے ہندو مذہب کے دیوتا ہنومان کی تعریف پر مبنی ’ہنومان چالیسا‘ کا پاٹھ کیا جائے گا۔

انہوں نے مذہبی عبادت گاہوں اور خاص طور پر مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی یوپی حکومت کی کارروائی کو سراہا ہے۔ اپنے ایک ٹوئٹ میں انہوں نے یوگی آدتیہ ناتھ کی اس کارروائی کا خیرمقدم کیا ہے۔


اس سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور بعض شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے بھی لاؤڈ اسپیکر پراذان دینے پر پابندی کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ راج ٹھاکرے کی دھمکی کے بعد بعض مقامات پر اذان کے وقت ہنومان چالیسا کا پاٹھ کرنے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔

صوتی آلودگی یا خفیہ ایجنڈا ؟

ایک سماجی تنظیم راشٹریہ مکتی مورچہ کے صدر، تجزیہ کار اور سپریم کورٹ کے وکیل رویندر کمار کا کہنا ہے کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ نوائز پولیوشن نہیں ہونا چاہیے لیکن کیا پولیس کے پاس نوائز پولیشن ناپنے کا آلہ ہے؟

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ ’نوائز پولیوشن‘ (صوتی آلودگی) کے بجائے ’مائنڈ پولیوشن‘ (دماغی آلودگی) کا مسئلہ ہے۔ ان کے مطابق یوپی حکومت کے اس اقدام میں ایمانداری کا عنصر کم ہے اور ان لوگوں کو خوش کرنے کی خواہش زیادہ ہے جو لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینے پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ رویندر کمار کے خیال میں اس مہم کے پیچھے حکومت کا کوئی خفیہ ایجنڈا ہے۔

لیکن آل انڈیا امامز آرگنائزیشن کے صدر مولانا عمیر الیاسی اس سے اتفاق نہیں رکھتے کہ یوپی حکومت کی یہ مہم کسی خفیہ ایجنڈے کے تحت چلائی جا رہی ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ گزشتہ تین سال سے بعض ہندو مذہبی رہنماؤں اور خاص کر مہا کالیشور گیان آشرم مندر دیوبند کے سوامی دیپانکر مہاراج کے ساتھ مل کر نوائز پولیوشن کے خلاف لوگوں کو بیدار کرنے کی مہم چلا رہے ہیں جسے عوامی حمایت حاصل ہے۔

سب سے پہلے شری کرشن جنم بھومی مندر متھرا سے 20 اپریل کو لاؤڈ اسپیکر ہٹائے گئے۔ یہ قدم مندر کے ٹرسٹ کے اس فیصلے کے بعد کیا گیا کہ مندر سے یومیہ صبح پانچ بجے سے ایک گھنٹے تک لاؤڈ اسپیکر سے جو آرتی یعنی پوجا کی جاتی ہے وہ نہیں کی جائے گی۔

SEE ALSO: بھارت میں لاؤڈ اسپیکر سے اذان اور حلال گوشت پر پابندی کے مطالبات، معاملہ ہے کیا؟


اس کے بعد بلرامپور کے شکتی پیٹھ تلسی پور مندر کے چار میں سے تین لاؤڈ اسپیکرز اتارے گئے۔

گورکھپور میں واقع وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے گورکھ ناتھ مندر کے ٹرسٹ نے بھی اپنے لاؤڈ اسپیکرز کی آواز کم کر دی ہے۔ عوامی مقامات پر نصب لاؤڈ اسپیکر بھی ہٹائے گئے ہیں۔ اسی طرح میرٹھ، کانپور اور دیگر مقامات پر بھی مندروں سے لاؤڈ اسپیکر اتار لیے گئےہیں۔

سماجی کارکن اور تجزیہ کار رویند رکمار کا خیال ہے کہ مندروں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے میں پہل محض ایک دکھاوا ہے تاکہ مسلمانوں کی جانب سے کوئی مزاحمت نہ کی جائے۔

ان کے خیال میں عبادت گاہوں او ربالخصوص مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے سے ان شدت پسندوں کی حوصلہ افزائی ہوگی جو اقلیتوں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں اور جو لاؤڈ اسپیکر سے اذان پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

لیکن مولانا عمیر الیاسی کہتے ہیں کہ اگر یہ مہم کسی ایک خاص مذہب کی عبادت گاہ کے خلاف ہوتی تو حکومت کی نیت پر شک کیا جا سکتا تھا۔ لیکن یہاں تو تمام مذاہب کی عبادت گاہوں سے لاؤڈ اسپیکر اتارے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی مسجد یا مندر میں کئی لاؤڈ اسپیکر لگے ہوئے ہیں اور ان کی آواز مقررہ حد سے اونچی ہے تو یہ قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

رویندر کمار کے خیال میں مندروں میں ایک بار یا زیادہ سے زیادہ دو بار صبح اور شام آرتی اور پوجا ہوتی ہے۔ لیکن مسجدوں سے تو پانچ بار اذان ہوتی ہے۔ اس لیے ان کا خیال ہے کہ اس مہم کا مقصد لاؤڈ اسپیکر سے اذان کو رکوانا ہے۔

SEE ALSO: بھارت میں مسلمانوں کے خلاف منافرت میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

’صوتی آلودگی کی روک تھام ضروری ہے ‘

تاہم رویندر کمار صوتی یا آواز کی آلودگی کو روکنا ضروری سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس بارے میں عوامی بیداری ضروری ہے اور اسی لیے اقوام متحدہ نے 27 اپریل کو صوتی آلودگی کی روک تھام کا دن قرار دیا ہے۔

وہ اس سے متفق ہیں کہ بہت زیادہ اونچی آواز سے صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ خاص طور پر بیماروں، معمر افراد، اسٹوڈنٹس اور بچوں کو اس سے پریشانی ہو تی ہے۔ لہٰذا نہ صرف عبادت گاہوں سے لاؤڈ اسپیکر کی آواز کم ہونی چاہیے بلکہ عوامی مقامات پر بھی اس پر پابندی لگنی چاہیے۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ لاؤڈ اسپیکرس کی آواز عبادت گاہ کے احاطے سے باہر نہ جائے لیکن یہ کیسے ممکن ہے۔ اگر کوئی مسجد چھوٹی ہے تو اس کی آواز تو باہر جائے گی۔ اس کے علاوہ اذان کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔

اس سلسلے میں مولانا عمیر الیاسی کا کہنا ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا۔ آج ہر شخص کے پاس اسمارٹ فون ہے اور اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب لاؤڈ اسپیکر کی ایجاد ہوئی تو بعض مذہبی رہنماؤں نے اس سے اذان دینے کی مخالفت کی۔

لکھنؤ عید گاہ کے امام اور دار العلوم فرنگی محل کے ذمہ دار مولانا خالد رشید فرنگی محلی بھی اس مہم کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنے ادارے کے تحت آنے والی تمام مسجدوں کے ذمہ داروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ لاؤڈ اسپیکرز کی آواز کم کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس کی آواز احاطے سے باہر نہ جانے پائے۔

ان کے مطابق دیگر تمام سنی مسجدوں کے ذمہ داروں کو بھی ایسی ہدایات دی گئی ہیں۔ خیال رہے کہ لکھنؤ میں مجموعی طور پر سات سو مساجدہیں جن میں شیعہ مکتب فکر کی 40 مسجدیں ہیں۔