پاکستان کی ہراساں کیے جانے کے واقعات کی روک تھام کے لیے وفاقی محتسب کشمالہ طارق نے کہا ہے کہ غیر شناسا افراد کو ان کی رضامندی کے بغیر بھیجے جانے والے غیر ضروری موبائل فون پیغامات ہراسگی میں شمار ہوں گے۔
کشمالہ طارق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘‘ ایسے غیر ضروری پیغامات خواتین کو بھیجنا ہراساں کیے جانے کے زمرے میں آئیں گے اور اس کے مرتکب افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ ’’
کمشالہ طارق کا کہنا ہے کہ ’’غیر ضروری میسجز میں صبح بخیر، سہ پہر بخیر اور شب بخیر کے موبائل فون پیغام ہو سکتے ہیں۔’’
انہوں نے کہا کہ متنازع موبائل فون پیغامات کے حوالے سے محتسب کے دفتر کو تواتر سے شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ ان کے بقول ایسے پیغامات بھیجنے والے افراد کو قانون کے مطابق سزا بھی دی گئی ہے۔ تاہم انہوں نے اس سزا کی تفصیل نہیں بتائی۔
کشمالہ طارق کے مطابق’’ غیر ضروری موبائل پیغامات سائبر کرائم کے زمرے میں بھی آتے ہیں’’۔
کشمالہ طارق نے کہا کہ کام کی جگہوں پر کسی کو مسلسل دباؤ میں رکھنا غیر مہذب رویوں کا اظہار اور بار بار کسی کو کھانے کی دعوت دینا بھی ہراساں کیے جانے کے دائرے میں آتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر آپ کے دفتر کا باس (سربراہ) آپ کو کام کی وجہ سے تنبیہ کرے تو ہراسگی ہے۔
وفاقی محتسب کے مطابق 'کچھ افسروں نے بھی کہا کہ خواتین کام کے لیے باہر نہیں جانا چاہتیں، جب ہم خواتین صنفی مساوات کی بات کرتی ہیں تو ہمیں کام بھی برابر کا کرنا ہے۔'
واضح رہے کہ پاکستان میں خواتین کو کام کی جگہوں پر ہراساں کیے جانے کے خلاف باقاعدہ قانون سازی 2010ء میں کی گئی تھی۔ جس کے تحت وفاق اور صوبائی سطح پر ہائی کورٹس کے مساوی خصوصی عدالتیں قائم کی گئی ہیں جو مبینہ ہراسگی سے متعلق شکایات سنتی ہیں۔
سابق رکن پارلیمنٹ کشمالہ طارق نے ایک سال قبل کام کی جگہوں پر ہراساں کیے جانے کے خلاف قائم عدالت میں بطور وفاقی محتسب ذمہ داریاں سنبھالیں اور ان کے مطابق اس عرصہ میں ہراساں کیے جانے کی شکایات میں 12 گناہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ ان کے بقول آگاہی اور شعور کی بیداری ہے۔
کشمالہ طارق نے کہا کہ وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسگی صرف خواتین کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ مرد حضرات بھی ہراساں کیے جانے پر شکایت کر سکتے ہیں بلکہ خاتون، خاتون کے خلاف اور مرد، مرد کے خلاف بھی ہراساں کرنے کی شکایت درج کرا سکتے ہیں۔ ان کے بقول وہ ہراسگی سے متعلق خواجہ سراؤں کی شکایات بھی سننا چاہتی ہیں جس کے لیے محتسب کے قواعد و ضوابط میں تبدیلی کی تجویز دی گئی ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ معاشرے میں اس قدر شعور آ جائے، خصوصاً خواتین اپنے حقوق سمجھتے ہوئے اس قدر با اختیار ہو جائیں کہ ہمیں ہراسگی کے ان قوانین کی ضرورت ہی نہ رہے۔
وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ محتسب ہراساں کیے جانے کے خلاف درخواست پر دو ماہ میں فیصلہ کرنے کا پابند ہے جس کے لیے نہ تو وکیل کی ضرورت ہے نہ ہی بذات خود پیش ہونے کی بلکہ شکایت کنندہ آن لائن درخواست دے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ اگر ایسی کوئی شکایت ہے تو پہلے متعلقہ ادارے کی ہراسگی سے متعلق کمیٹی اس پر فیصلہ کرے اور اس کے بعد یہ معاملہ محتسب کے پاس اپیل میں لایا جا سکتا ہے، تاہم اگر شکایت کنندہ چاہے تو وہ براہ راست بھی محتسب کے پاس آ سکتا ہے۔
کشمالہ طارق کے مطابق ان کے بطور وفاقی محتسب ایک سالہ دور میں ایسی کوئی بھی شکایت نہیں آئی جس میں الزام بے بنیاد ہو۔ ‘‘ابھی تک سینکڑوں شکایات نمٹا چکی ہوں، یقین کریں ایک سال میں کوئی ایک شکایت ایسی نہیں دیکھی جس میں ہراسیت کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہو، البتہ کچھ شکایات جانبدارانہ رویے میں آ جاتی ہیں اور ان کے مطابق وفاقی محتسب کو یہ شکایات بھی سننا چاہیئں’’۔
وفاقی محتسب نے بتایا کہ خواتین ہمت کر کے شکایت تو کر دیتی ہیں لیکن مقدمے کو آگے لے کر جانے کی ہمت نہیں رکھتیں، جس کی وجہ معاشرے کے قدامت پسند رویے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی بنا پر وفاقی محتسب نے ان رویوں کی روک تھام کے لیے 'لوگ کیا کہیں گے' کے عنوان سے ٹی وی چینل اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شعوری مہم چلائی ہے۔
وفاقی محتسب کے فیصلوں پر عمل درآمد کے متعلق کشمالہ طارق کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ سرکاری اور نجی اداروں سے زیادہ تر اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کروا لیتا ہے لیکن بعض فیصلوں میں عدالتوں کا حکم امتناہی حائل ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی محتسب کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل صدر مملکت کے پاس جاتی ہے جس کے بعد اسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول ہائی کورٹ کو صدر مملکت کے فیصلے کے بعد اپیل کا حق دینا معاملے کو نتیجے تک پہنچانے میں طوالت دینا اور کمزور لوگوں بالخصوص خواتین کے لیے اذیت و ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ وفاقی محتسب کو سروسز ٹربیونل یا الیکشن ٹربیونل کی طرز پر اختیارات کے لیے سمری وزارت قانون کو بجھوا چکی ہیں اور انہیں اُمید ہے کہ قانون سازی کے ذریعے ہائی کورٹ میں وفاقی محتسب کے فیصلوں پر نظرثانی کے حق کو ختم کر کے اسے سپریم کورٹ تک محدود کر دیا جائے گا۔
کشمالہ طارق کا کہنا تھا کہ ماضی میں انہوں نے بھی ہراساں کیے جانے کے واقعات کا سامنا کیا ہے۔ جب وہ رکن پارلیمنٹ تھیں تو ان کی ساتھی خواتین ارکان کو بھی اس قسم کی صورت حال کا سامنا رہا اور یہی چیز انہیں تقویت دیتی ہے کہ جس صورت حال کا انہوں نے سامنا کیا ہے، وہ دوسروں کو نہ کرنا پڑے۔