اقوامِ متحدہ نے شمالی کوریا پر نئی پابندیاں عائد کردیں

سلامتی کونسل کے رکن ملکوں کے سفیر پیر کی شب ہونے والے اجلاس میں شمالی کوریا کے خلاف قرارداد کے حق میں ہاتھ اٹھا کر ووٹ دے رہے ہیں

نئی پابندیوں میں شمالی کوریا کے توانائی سیکٹر کو نشانہ بنایاگیا ہے جن کے نفاذ کے بعد شمالی کوریا بین الاقوامی منڈی سے اپنی ضرورت کا 30 سے 35 فی صد تیل درآمد نہیں کرسکے گا۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر شمالی کوریا کے خلاف نئی اور مزید سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی منظوری دیدی ہے۔

یہ نئی پابندیاں شمالی کوریا کی جانب سے تین ستمبر کو کیے جانے والے جوہری تجربے کے ردِ عمل میں عائد کی گئی ہیں۔

عالمی ادارے کی 15 رکنی سلامتی کونسل نے پیر کی شب اپنے ایک اجلاس میں شمالی کوریا پر نئی پابندیوں سے متعلق امریکہ کی تجویز کردہ قرارداد منظور کی۔

نئی پابندیوں میں شمالی کوریا کے توانائی سیکٹر کو نشانہ بنایاگیا ہے جن کے نفاذ کے بعد شمالی کوریا بین الاقوامی منڈی سے اپنی ضرورت کا 30 سے 35 فی صد تیل درآمد نہیں کرسکے گا۔

نئی پابندیوں کے تحت شمالی کوریا کو اپنی ضرورت کی گیس، ڈیزل اور ہیوی فیول کی کل درآمدات کی نصف مقدار سے بھی محروم ہونا پڑے گا جب کہ اس پر قدرتی گیس اور تیل کی دیگر اقسام درآمد کرنے پر مکمل پابندی ہوگی۔

قرارداد کی منظوری کے بعد سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں اقوامِ متحدہ میں تعینات امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے کہا کہ نئی پابندیاں شمالی کوریا کو عالمی برادری کا متفقہ پیغام ہیں کہ وہ کسی صورت پیانگ یانگ کے جوہری ہتھیاروں کو قبول نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل نے شمالی کوریا کو پیغام دیا ہے کہ اگر اس نے اپنا جوہری پروگرام نہ روکا تو پھر ہم خود اسے روکنے کےلیے آگے آئیں گے۔

نکی ہیلی کا مزید کہنا تھا کہ نئی پابندیوں کے نتیجے میں اپنے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگراموں کے لیے وسائل مہیا کرنے کی شمالی کوریا کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوگی۔

عالمی ادارے کی جانب سے منظور کردہ نئی قرارداد میں شمالی کوریا کے ٹیکسٹائل برآمدات پر بھی مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔

ٹیکسٹائل شمالی کوریا کی دوسری بڑی صنعت ہے جس پر پابندیوں کے نتیجے میں امریکی حکام کے مطابق پیانگ یانگ کو سالانہ 80 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوگا۔

قرارداد میں شمالی کوریا کے بیرونِ ملک مقیم ایک لاکھ سے زائد شہریوں کی جانب سے اپنے ملک کو ترسیلاتِ زرپر بھی بتدریج پابندی عائد کرنے کی تجویز شامل ہے جس پر عمل درآمد کی صورت میں پیانگ یانگ حکومت کو مزید نصف ارب ڈالر سے محروم ہونا پڑے گا۔

امریکہ کی جانب سے شمالی کوریا پر نئی پابندیوں کی قرارداد کا مسودہ گزشتہ ہفتے سلامتی کونسل کے رکن ممالک کو بھیجا گیا تھا جسے انتہائی عجلت میں منظور کیا گیا ہے۔

ماضی میں پیانگ یانگ پر پابندیوں سے متعلق قراردادوں پر سلامتی کونسل کے ارکان خصوصاً امریکہ اور چین کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ کئی کئی مہینوں تک جاری رہتا تھا جس کے بعد قرارداد پر رائے شماری کی نوبت آتی تھی۔

لیکن اس بار میں شمالی کوریا کے جوہری تجربے کے اگلے ہی روز ہونے والے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں عالمی ادارے میں امریکہ کی مستقل مندوب نکی ہیلی نے خبردار کیا تھا کہ اس بار کونسل کے ارکان کو فوراً اور تیزی سے اقدامات کرنا ہوں گے۔

قرارداد کی عجلت میں منظوری کے لیے سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے امریکہ کو قرارداد کے مجوزہ مسودے میں شامل کئی اہم شقوں سے دستبردار ہونا پڑا ہے۔

قرارداد کے ابتدائی مسودے میں امریکہ نے شمالی کوریا کو تیل کی فراہمی مکمل طور پر بند کرنے اور ملک کے سربراہ کم جونگ ان کے تمام اثاثے منجمد کرنے کی تجاویز دی تھیں جو منظور کی جانے والی قرارداد میں شامل نہیں۔

قرارداد کے ابتدائی مسودے میں امریکہ نے ان جہازوں کے خلاف ضرورت پڑنے پر طاقت کا استعمال کرنے کی اجازت بھی طلب کی تھی جن کے بارے میں حکام کو شبہ ہو کہ وہ شمالی کوریا کو وہ اشیا اسمگل کر رہے ہیں جن پر پابندیاں عائد ہیں۔

تاہم اقوامِ متحدہ میں تعینات مختلف ملکوں کے سفارتی عملے کا کہنا ہے کہ امریکہ کو قرارداد پر چین اور روس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنی اس تجویز سے بھی دستبردار ہونا پڑا ہے۔

چین اور روس دونوں نے شمالی کوریا کے حالیہ جوہری تجربے کی مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی تھی۔ لیکن ساتھ ہی ان کا اصرار ہے کہ شمالی کوریا کے ساتھ تنازع کا سفارتی حل نکالا جائے۔

سلامتی کونسل کے اجلاس سے قبل شمالی کوریا کی حکومت نے خبردار کیا تھا کہ اگر کونسل نے پیانگ یانگ کے خلاف مزید پابندیوں کی منظوری دی تو امریکہ کو اس کی "بھاری قیمت" بھگتنا ہوگی۔