گذشتہ ہفتے کے اختتام پر امریکی کالم نگار ڈیوڈ اگنیشئس نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ہماری افغان حکمت عملی میں اتنے الجھاؤ کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں اس بارے میں کوئی واضح تصویر موجود نہیں ہے کہ امریکہ افغانستان میں فوجی کارروائیوں اور سفارت کاری کے امتزاج سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔اوریہی بات پاکستان کے سلسلے میں بھی صادق آتی ہے۔ پاکستانی عوام اس بارے میں واضح نہیں ہیں کہ آیا امریکہ پاکستان کا ایک سچا دوست ہے یا نہیں ۔
پاکستان میں ایسے گروپ اور افراد موجود ہیں جو اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام امریکہ کو اپنا دشمن سمجھیں۔ ان کی پراپیگنڈہ کوششیں خاصی کامیاب رہی ہیں اوریکے بعد دیگرے ہونے والے سروے یہ ظاہر کرتے ہیں پاکستان میں لوگوں کی اکثریت امریکہ کےبارے میں منفی خیالات رکھتی ہے۔اس حقیقت کے باوجود کہ امریکہ پاکستان کی مالی مدد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کی امداد میں اضافہ ہورہاہے ۔ وہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اورپاکستانی طالب علموں کو بیشتر ممالک کے اسٹوڈینٹس سے زیادہ فل برائٹ اسکالرشپ دے رہاہے۔لیکن ایک ڈورن کے حملے میں ہونے والی عام شہریوں کی ہلاکتیں ، پاکستان میں امریکہ مخالف عناصر کے حق میں اور پاکستان میں امریکہ کا تاثر خراب کرنے کے لئے جو کچھ کررہی ہیں وہ اربوں ڈالر اور خیر سگالی کی کوششیں امریکہ کے لیے نہیں کر سکتے ہیں ۔ ایک ڈورن حملہ صرف القاعدہ اور طالبان دہشت گردوں ہی کو ہلاک نہیں کرتا بلکہ یہ پاکستانی عوام کو یہ یقین دلانے کی امریکی کوششوں کو بھی برباد کر سکتا ہے کہ امریکہ ان کا دوست ہے دشمن نہیں۔
تو ، پھر امریکہ کو کیا کرنا چاہیے؟ بیشتر تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ صرف اس وجہ کے لیے ڈرون حملے نہیں رو ک سکتا کہ یہ القاعدہ اور طالبان عسکریت پسندوں سے نمٹنے کا واحد سب سے کامیاب طریقہ ہے۔ یہ امریکہ کے ریوارڈ فار جسٹس پروگرام سے بھی زیادہ کامیاب طریقہ ہے جس میں شر پسندوں کو پکڑنے میں مدد کرنے والوں کو انعامات میں لاکھوں ڈالرز کی پیش کش کی گئی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ امریکہ پاکستان کو امریکہ مخالف جذبات میں گھرا بھی نہیں چھوڑ سکتا ۔ پاکستان کئی لحاظ سے اس سے بھی زیادہ اہم ملک ہے جتناکہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں۔ اس کا محلِ وقوع انتہائی اہم ہے ۔ یہ مسلم دنیا کی واحد جوہری طاقت ہے اور القاعدہ اور طالبان سے لڑنے کے لیے ابھی تک امریکہ کا سب سے اہم شراکت دار ہے ۔
ایک تجویز جو میں اکثر سنتا ہوں وہ یہ ہے کہ امریکہ کو پاکستان میں ایسے پراجیکٹس پر سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے جو وہاں کے عوام کی زندگیوں پر براہ راست کوئی مثبت اثر ڈال سکیں اور وہ اس فرق کو فوری طور پر محسوس بھی کر سکیں ، مثلاً توانائی کے سیکٹر میں ۔ ایک ، میڈ ان یو ایس اے ، پاور پلانٹ ،جو پاکستان کے کچھ بڑے شہروں میں بجلی کی قلت کو کم کر سکے ، امریکہ کے تاثر کو بہتر بنانے میں مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔ لیکن کیا اس قسم کی حکمت عملی کار گر ہو سکتی ہے یا پھر پاکستان کے لوگوں کے دل جیتنا پہلے ہی ایک کھویا ہوا نصب العین بن چکا ہے؟
بہر طور ، امریکہ ابھی تک پاکستان کے لوگوں کے لیے تعلیم، روزگار اور حتیٰ کے اپنے بچوں کی پرورش کے لیے بھی اولین ترجیح ہے ۔ یہ چیز اس بات کی مظہر ہے کہ خیر سگالی بڑھانے کے لیے کوئی بنیاد موجود ہے ۔ لیکن خیرسگالی کا جذبہ کس طرح پیدا کیا جائے؟