دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے عوام، سیاسی اور حکومتی حلقے بھی امریکی صدارتی انتخاب کے حتمی نتائج کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی قیادت سمجھتی ہے کہ اگرچہ اس صدارتی انتخاب کے نتیجے میں امریکہ کے نئے سیاسی دور میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بڑی تبدیلی تو واقع نہیں ہو گی لیکن اس کے دنیا اور بالخصوص ایشیائی خطے میں دورس اثرات مرتب ہوں گے۔
سیاسی قیادت کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ آنے سے خطے میں افغانستان اور چین کے حوالے سے ان کی جاری پالیسیاں آگے بڑھیں گی۔ البتہ جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے پر چین اور ایران سے متعلق واشنگٹن کی سخت پالیسی میں تبدیلیاں واقع ہو سکتی ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے امریکی انتخابات پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد امریکہ سے بھارت کے تناظر میں مساوی رویہ دیکھنا چاہتا ہے اور تنازع کشمیر کے معاملے پر واشنگٹن سے دونوں فریق ممالک کے ساتھ اسے یکساں پالیسی اپنائے جانے کی توقع ہے۔
جرمن جریدے کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان کی رائے تھی کہ جو بائیڈن رائے عامہ میں مقبول نظر آہے ہیں تاہم ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی خاصیت ہے کہ وہ روایتی سیاست دان نہیں ہیں اور کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
'بہتر خارجہ پالیسی سے خطے کے حالات کو اپنے حق میں کرنا ہو گا'
پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کا خیال ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں ٹرمپ یا بائیڈن جو بھی وائٹ ہاؤس میں براجمان ہو گا پاک امریکہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہے گا۔ البتہ اسلام آباد اپنی بہتر خارجہ پالیسی سے خطے کے بدلتے حالات کو اپنے حق میں مفید بنا سکتا ہے۔
سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ پوری دنیا کی طرح پاکستان کے عوام، حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت کی نظریں واشنگٹن ڈی سی پر ہیں کہ امریکی عوام کسے اپنا نیا صدر منتخب کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے کچھ امکانات زیادہ ہیں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ یا بائیڈن جو بھی منتخب ہوں اس کے دنیا کے ساتھ ساتھ جنوب ایشیائی خطے پر دورس اثرات مرتب ہوں گے کیوں کہ امریکہ کے اس خطے سے مفادات وابستہ ہیں۔
امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر، سینیٹر شیری رحمن کہتی ہیں کہ انتخاب میں جو بھی کامیاب ہو پاکستان امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ بطور پاکستانی رہنما کے یہ نہیں کہہ سکتیں کہ بائیڈن جیتیں یا ٹرمپ دوبارہ آئیں کیوں کہ پاکستان بطور ریاست امریکہ کے ساتھ تعلقات رکھتا ہے۔
شیری رحمان نے کہا کہ وہ توقع رکھتی ہیں کہ جو بھی صدارتی انتخاب میں کامیاب ہو پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے جائیں۔
سینیٹ خارجہ امور کمیٹی کی رکن سینٹر ستارہ ایاز کہتی کہ ٹرمپ کے جیتنے کی صورت میں امریکہ کی جاری پالیسیوں میں زیادہ تبدیلی نہیں آئے گئی۔ البتہ بائیڈن کے اوول آفس آنے پر پاکستان سے متعلق پالیسی میں کچھ تبدیلیاں ہو سکتی ہیں جس میں پاکستان کو محض خطے کے تناظر میں نہیں دیکھا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جغرافیائی اہمیت کا حامل ملک ہے تاہم ٹرمپ جیتیں یا بائیڈن پاکستان کو اپنی گیم صحیح کھیلنے کی ضرورت ہے۔ البتہ وہ سمجھتی ہیں کہ نئی شخصیت کے اوول آفس سنبھالنے کی صورت میں تعلقات کو دوبارہ سے استوار کرنے کا موقع ملتا ہے۔
شیری رحمن کا خیال ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات ایک مشکل ماحول میں ہو رہے ہیں جب کہ معاشرہ کے مختلف طبقات میں تقسیم پائی جاتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سینیٹر ستارہ ایاز کہتی ہیں کہ اس وقت انتخابات کے باعث بہت عجیب ماحول بنا ہوا ہے اور سب کہ رہے ہیں کہ یہ ماحول اور معاشرتی تقسیم خطرناک ہو سکتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ صدارتی انتخابات میں اعلانیہ اسٹیبلشمنٹ کے کردار اور ممکنہ دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں جو کہ عام طور پر ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں دیکھا جاتا تھا۔
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے گزشتہ ہفتے وائس آف امریکہ کو خصوصی انٹرویو میں امریکی صدارتی انتخابات ہر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ انتخابات غیر یقینی کی صورتِ حال میں ہو رہے ہیں جس کی راہ میں کئی عملی و تیکنیکی مسائل سامنے آ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی صدارتی انتخابات حتمی نتائج کے آنے تک ہنگامہ خیز رہیں گے اور ان کے بقول فوری طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ انتخابات کا نتیجہ کیا ہو گا اور نتائج آنے کے بعد کیا ہو گا۔
نیا امریکی صدر کشمیر پر ثالثی کرے گا؟
سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں پاک امریکہ تعلقات میں جو دوریاں اوباما دور میں پیدا ہوئیں تھیں وہ حالیہ عرصے میں دور ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے دوبارہ آنے کی صورت وہ اپنی افغان امن پالیسی آگے لے کر چلیں گے جس میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے۔ تاہم مشاہد حسین کے بقول چین کے ساتھ ری پبلکن صدر ایک نئی سرد جنگ کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جو امریکہ کو بھارت کے مزید قریب لے جائے گی۔
ڈیموکریٹک امیدوار کے جیتنے کی صورت پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیٹ خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ جو بائیڈن ایران سے مذاکرات کی بحالی اور چین کے ساتھ جنگی ماحول میں کمی لائیں گے۔
سینیٹر ستارہ ایاز کہتی ہیں کہ اگر عوامی سروے کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ ٹرمپ ہار رہے ہیں اور ایسی صورت میں اگر جو بائیڈن آتے ہیں تو اُنہوں نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات بحال کریں گے جس سے ان کے بقول خطے کی صورتِ حال میں توازن پیدا ہو گا۔
وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ جو بائیڈن انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں اور کشمیر میں بھارتی مظالم پر بھی نوٹس لیں گے۔
سینیٹر شیری رحمان کہتی ہیں کہ پاکستانی عوام اور سیاسی قیادت چاہتی ہے کہ جو بھی منتخب ہو اسلام آباد کے لیے نرم گوشہ رکھے اور پاکستان کے تجارتی و اسٹرٹیجک مفادات کو ترجیح دے۔
وہ کہتی ہیں کہ واشنگٹن پاکستان کو افغانستان یا خطے کی نظر سے نہ دیکھے اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں اسلام آباد کو نظر انداز کرنا درست حکمت عملی نہیں ہو گی۔
شیری رحمان نے امید ظاہر کی کہ امریکہ کے نئے منتخب ہونے والے صدر مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا کردار بھی ادا کریں گے۔