اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ان 27 بحری جہازوں، 21 کمپنیوں اور ایک کاروباری شخص کو بلیک لسٹ میں شامل کیا ہے جنہوں نے شمالی کوریا پر عائد تعزیرات سے بچنے میں پیانگ یانگ کی مدد کی تھی۔
یہ تعزیرات شمالی کوریا کی طرف سے حالیہ سفارتی مذاکرات کا عمل شروع کرنے کے باوجود عائد کی گئی ہیں جن کا مقصد پیانگ یانگ پر دباؤ کو برقرار رکھنا بتایا گیا ہے۔
ایک سفارت کار نے فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکہ کی درخواست پر عمل کرتے ہوئے سلامتی کونسل نے شمالی کوریا پر اب تک عائد کی جانے والے سب سے زیادہ تعزیرات کی منظوری دی۔
یہ اقدام ان عالمی کوششوں کا حصہ ہے جو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت عائد تعزیرات کی خلاف ورزی میں شمالی کوریا کی مصنوعات کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ یہ پابندیاں پیانگ یانگ کی طرف سے جوہری اور بیلسٹک میزائل کے تجربات کرنے کی ردعمل میں عائد کی گئی تھیں۔
اے ایف پی کو موصول ہونے والی اقوام متحدہ کی دستاویزات کے مطابق شمالی کوریا کے 13 تجارتی جہاز بشمول تیل کے جہازوں پر دنیا میں کوئی بھی بندرگاہ استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ 12 دوسرے تجارتی جہازوں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے جو شمالی کوریا کی اشیاء اور تیل سمگل کرنے یا شمالی کوریا کے جہازوں کو تیل کی فراہمی میں معاونت کر رہے تھے۔
اس کے علاوہ شمالی کوریا کے دو بحری جہازوں کے اثاثے بھی منجمند کر دیے گئے ہیں تاہم ان جہازوں پر بندرگاہوں میں داخل ہونے کی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ 21 تجارتی اور شپنگ کمپنیوں کے اثاثے بھی منجمند کر دیئے گئے ہیں جن میں سے تین ہانگ کانگ میں قائم ہیں اور ان میں ایک ایسی کمپنی بھی ہے جس نے اکتوبر میں شمالی کوریا کے کوئلے کو ویت نام لے جانے میں مدد کی تھی۔
ان تعزیرات کی ایسے وقت منظوری دی گئی ہے جب امریکہ شمالی کوریا کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام سے متعلق بات چیت کا عمل شروع کرنے والا ہے جس دوران ممکنہ طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ اُن کے درمیان مئی کے اواخر میں براہ راست ملاقات ہو سکتی ہے۔
ان سفارتی اقدامات کے باوجود امریکہ نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ پیانگ یانگ پر مزید تعزیرات عائد کر کے دباؤ کو جاری رکھے گا تاکہ ان کی وجہ سے شمالی کوریا اپنے موقف کو تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے گزشتہ سال شمالی کوریا کی برآمدات پر پابند ی عائد کرنے کے لیے متعدد قرار دادوں کی منظوری دی تھی تاکہ پیانگ یانگ کے جوہری اور میزائل پروگرام کے لیےمالی وسائل کی فراہمی روکی جا سکے۔