کراچی: موٹر سائیکل سے فائر انجن کا کام

موٹر سائیکل کو فائر انجن بنانے کا آئیڈیا ایسا کلک ہوا کہ شہر کی ایک فلاحی تنظیم ’سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ‘ نے ’سیلانی ریسکیو سروس‘ کے نام سے موٹر سائیکلوں پر آگ بجھانے کے آلات فکس کئے اور ان سے فوری آگ بجھانے کا کام لیا جانے لگا

دنیا بھر کی ’فائر بریگیڈز‘ میں شامل عملہ بڑے بڑے فائر انجن استعمال کرتا ہے۔ لیکن، کراچی میں فائر انجن کا کام موٹر سائیکلوں سے لیا جا رہا ہے۔ دیکھنے میں یہ موٹر سائیکلز بالکل عام سی ہیں۔ لیکن، ان سے لیا جانے والا کام واقعی بہت اہم اور وقت کا تقاضہ بن چکا ہے۔

دو ارب سے زیادہ آبادی والے اس شہر کے متعدد علاقوں کی گلیاں آج بھی اتنی تنگ ہیں کہ یہاں تین پہیوں والا رکشا نہیں گزر سکتا۔ پھر، شہر میں کچی آبادیوں کی بھی بھرمار ہے۔ ایسے میں، فائر انجن کا بلا رکے اپنا کام کرنا ناممکنات میں سے ہے۔

واقعات گواہ ہیں کہ اکثر عمارات میں لگنے والی آگ پر قابو پانا محض اس لئے مشکل اور اتنا زیادہ وقت طلب تھا کہ آگ میں پھنس جانے والے بعض افراد ریسکیو کے انتظار میں ہی اس دنیا سے چل بسے۔

اس مسئلے کا آسان حل یہی تھا کہ فائر انجن چھوٹے سے چھوٹے ہوں۔ لیکن، یہ بھی صرف ایک حد تک ہی ممکن ہے۔ لہذا، موٹر سائیکل کو فائرانجن بنانے کا آئیڈیا ایسا کلک ہوا کہ شہر کی ایک فلاحی تنظیم ’سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ‘ نے ’سیلانی ریسکیو سروس‘ کے نام سے موٹر سائیکلوں پر آگ بجھانے کے آلات فکس کئے اور ان سے فوری آگ بجھانے کا کام لیا جانے لگا۔ یعنی ،وہی کام جو بڑے بڑے فائر انجن انجام دیتے ہیں۔

یہ سروس یعنی، ’سیلانی ریسکیو‘ اسی سال جنوری میں شروع ہوئی تھی اور آج مختصر مدت کے بعد یہ باقاعدہ ’موٹرسائیکل فائربریگیڈز‘ کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ شہر کی سڑکوں پر گیس سلینڈر پھٹنے سے کسی رکشا، گاڑی یا کہیں بھی آتشزدگی کا واقعہ ہو یہ بریگیڈ آناً فاناً وہاں پہنچنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

اس سروس کے لئے بطور فائر فائٹر اپنی خدمات انجام دینے والے، محمد عاصم نے وائس آف امریکہ کو بتایا: ’ہر موٹر سائیکل پر پانی کے دو سلینڈر، آگ بجھانے والا فوم ،کارٹیج سلینڈر، مختلف کیمیکلز، کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس، آکسیجن سلینڈر اور فرسٹ ایڈ باکس موجود ہوتا ہے۔ ہر موٹر سائیکل پر لگے ہوئے پانی کے سلینڈر کے ساتھ 30فٹ لمبا پائپ بھی رکھا ہوتا ہے۔ واٹر سلینڈر میں 45 لیٹر پانی کی گنجائش ہوتی ہے، جبکہ گیس کٹر اور کنٹرول روم سے رابطے کے لئے وائرلیس سسٹم بھی اسی موٹرسائیکل پر نصب ہوتا ہے۔‘

ادارے کی اچھی کارکردگی کے سبب، بیشتر مبصرین کا کہنا ہے کہ، ’یہ نہایت منفرد آئیڈیا تھا جسے سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ نے حقیقت کا روپ دیا۔ شہر میں ٹریفک کی نہایت گھمبیر صورتحال اور ذرائع آمد و رفت کے بے شمار مسائل کے باوجود، سب سے تیز رسپانس اور سب سے پہلے حادثے کی جگہ پر پہنچنے کے لئے موٹر سائیکل سے زیادہ کسی اور ذریعے پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی سبب، یہ سروس بہت تیزی سے شہرت پا رہی ہے۔‘

پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مہنگائی کے باوجود، سیلانی ریسکیو سروس کا بلامعاوضہ خدمات انجام دینا نہایت قابل قدر کارنامہ ہے۔ شہر میں اس سروس کے لئے چار مختلف سینٹرز قائم کئے گئے ہیں اور ان سینٹرز کے آسان ترین نمبر 1022 پر فون کرکے، رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے نگراں اعلیٰ مولانا محمد بشیر فاروقی کا کہنا ہے کہ، ’کچھ عرصہ پہلے، بلدیہ ٹاوٴن کراچی کی گارمنٹ فیکٹری میں لگنے والے آتشزدگی کے واقعے نے انہیں ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس حادثے میں 250سے زائد افراد لقمہٴاجل بن گئے تھے۔ اس سانحے کے بعد ہی ہم لوگوں نے موٹر سائیکل فائر بریگیڈ یا ریسکیو سروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

مولانا فاروقی کے مطابق، ’سیلانی ویلفیئر۔۔ غیرسرکاری، فلاحی اور چیئریٹی ٹرسٹ ہے جو 1999ء میں قائم کیا گیا تھا۔ آج یہ 63مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہا ہے۔‘

چیف فائرفائٹر، عبدالوحید اور محمد عاصم نے بتایا کہ،’اس وقت 20 سے زائد فائرفائٹرز ہیں جنہیں سول ڈیفنس اسکول نے باقاعدہ تربیت دی ہے۔ ریسکیوٹیم اب تک 15سے زائد واقعات میں نمایاں خدمات انجام دے چکی ہے۔ اس ریسکیو سروس کا کام تب تک جاری رہتا ہے، جب تک شہری اداروں کے تحت چلنے والا فائربریگیڈز کا عملہ جائے حادثہ پر نہیں پہنچتا۔ کیوں کہ، موٹر سائیکل سے ایک حد تک ہی مدد لی جا سکتی ہے۔ آتشزدگی کے بڑے واقعات میں لازماً بڑے بڑے فائر انجن ہی کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔‘