ایرانی صدر کی سعودی عرب کی پالیسیوں پر تنقید

ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ سنگِ میل جوہری سمجھوتے پر عمل درآمد کو تیز کیا جائے، جب کہ اُنھوں نے خطے میں سعودی عرب کے اقدامات پر تنقید کی۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ’مربوط مشترکہ جوہری سمجھوتے (جے سی پی او اے)‘ پر، بقول اُن کے، ’’امریکہ کی جانب سے عمل درآمد نہ کیے جانے کا رویہ اپنانا کمی کی نشاندہی کرتا ہے جسے فوری طور پر دور کیا جانا چاہیئے‘‘۔ اجلاس میں مملکت و حکومتوں کے سربراہان شریک تھے۔ اُنھوں نے ’جوائنٹ کمپری ہنسو پلان آف ایکشن‘ کے مخفف ’جے سی پی او اے‘ کا حوالہ دیا۔ ایران اور عالمی طاقتوں نے گذشتہ سال سمجھوتے سے اتفاق کیا۔

ایران اِس بات پر مایوس ہے کہ بیرونی بینک ملک سے لین دین کے سلسلے میں دوری کا انداز جاری رکھے ہوئے ہیں۔

روحانی نے اپریل میں امریکی عدالت ِعظمیٰ کی جانب سے دیے گئے فیصلے پر ناخوشی کا اظہار کیا۔

عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ دو ارب ڈالر کے منجمد ایرانی اثاثے سنہ 1983 میں لبنان میں امریکی مرین کور کے بیرکوں پر بمباری اور دیگر حملوں کے متاثرین میں تقسیم کیے جانے چاہئیں۔

روحانی نے مزید کہا کہ ’’امریکہ مکمل طور پر آگاہ ہے کہ ’جے سی پی او اے‘ تسلیم شدہ کثیر ملکی سمجھوتے کا حصہ ہے، اور اس کی عمل درآمد میں امریکہ کی جانب سے کوئی ناکامی بین الاقوامی غلط اقدام کے زمرے میں آتی ہے جس پر بین الاقوامی برادری کو اعتراض ہوگا‘‘۔ روحانی کی اس بات کا مقصد امریکی صدارتی امیدواروں کو انتباہ دینا تھا کہ اُنھیں اس سمجھوتے کی حرمت کا پاس رکھنا چاہیئے۔

ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے سمجھوتے کو ’’بے عزتی‘‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اِن تعزیرات کو ’’دوگنا‘‘ کر دیا جانا چاہیئے تھا۔ ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ وہ اس سمجھوتے کی پابند ہیں۔ تاہم، وہ ایران کے ساتھ محتاط انداز اپنائیں گی۔

روحانی نے کہا کہ یہ سمجھوتا سبھی کے لیے سودمند ہے اور اسے ایک مثال بننا چاہیئے کہ ’’بین الاقوامی مسائل کتنے ہی پیچیدہ‘ کیوں نہ ہوں، سفارتی طریقہ کار سے اِنھیں حل کیا جا سکتا ہے۔


جمعرات کی شام، چھ طاقتوں سے تعلق رکھنے والے وزرائے خارجہ، جنھوں نے اس سمجھوتے کے سلسلے میں مذاکرات کیے تھے، اور ایران کا ایک اجلاس ہوگا جس میں عمل درآمد کے معاملے پر بات ہوگی۔

ایرانی رہنما نے اپنے خطاب میں خطے کے طاقت ور ملک، سعودی عرب پر نکتہ چینی کی جس کے ساتھ ایران ’پراکسی‘ لڑائی لڑ رہا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’یمن کے غیر مسلح عوام کو فضائی بمباری جھیلنی پڑتی ہے‘‘۔

اس معاملے پر ایران کی شیعہ حکومت اور وہابی مسلک کے واسطہ رکھنے والا سعودی عرب ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔