پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کے نئے منصوبے پر اقوام متحدہ کی تشویش

اسلام آباد میں افغان پناہ گزین ایک مظاہرےکے دوران، فوٹو اے پی 21 جولائی 2023

  • پاکستان نے ملک میں مقیم تقریباً 30 لاکھ افغان شہریوں کی ملک بدری کےمنصوبے کی منظوری دے دی۔
  • اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ہائی کمشنر بر (یو این ایچ سی آر) اور اقوام متحدہ کےپنا ہ گزینوں کے ادارے ( آئی ایل او) نے کہا کہ وہ "اس نقل مکانی کے طریقہ کار اور ٹائم فریم کے بارے میں وضاحت چاہتے ہیں ۔"
  • دونوں ایجنسیوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ نقل مکانی کے اقدامات پر عمل درآمد کرتے وقت انسانی حقوق کے معیارات کو سامنے رکھے ۔
  • ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے افغان شہریوں میں قانونی طور پر قرار دیے گئے مہاجرین، دستاویز کے ساتھ اور دستاویز کے بغیر پاکستان میں موجودافغان تارکین وطن اور وہ افغان لوگ بھی شامل ہیں جو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں اپنی منتقلی کے وعدے پورے ہونے کے منتظر ہیں۔
  • سرکاری منصوبہ پاکستانی حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ تمام افغان شہریوں کو قومی دارالحکومت اسلام آباد اور اس سے ملحقہ شہر راولپنڈی سے فوری طور پر ان کی افغانستان واپسی سے قبل مخصوص کیمپوں میں منتقل کردے۔

اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں اور ترک وطن پر توجہ مرکوز کرنے والی تنظیموں نے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں اور پناہ کے متلاشیوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کا ایک نیا مرحلہ شروع کرنے کے منصوبے پر مشترکہ طور پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

عالمی ادارے کے حکام کا یہ ردعمل پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے ملک میں مقیم تقریباً 30 لاکھ افغان شہریوں کی ملک بدری کے کئی مراحل پر مشتمل منصوبے کی منظوری کے ایک ہفتے بعد سامنے آیا ہے۔

اس پروگرام سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے افغان شہریوں میں قانونی طور پر قرار دیے گئے مہاجرین، دستاویز کے ساتھ اور دستاویز کے بغیر پاکستان میں موجودافغان تارکین وطن اور وہ افغان لوگ بھی شامل ہیں جو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں اپنی منتقلی کے وعدے پورے ہونے کے منتظر ہیں۔

سرکاری منصوبہ، جسے وائس آف امریکہ نے دیکھا ہے، پاکستانی حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ تمام افغانوں کو دارالحکومت اسلام آباد اور اس سے ملحقہ شہر راولپنڈی سے فوری طور پر ان کی افغانستان واپسی سے قبل مخصوص کیمپوں میں منتقل کردے۔

SEE ALSO: افغانستان کے پڑوسی افغان پناہ گزینوں کو ملک سے نہ نکالیں : این آرسی

مذکورہ منصوبے میں ٹائم لائن کا ذکر کیے بغیر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ملک بدری کے حوالے سے کوئی عوامی اعلان نہیں کیا جانا چاہیے۔

بدھ کو ایک مشترکہ بیان میں، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) اور بین الاقوامی ادارہ برائے ہجرت( آئی ایل او) نے کہا کہ وہ "اس نقل مکانی کے طریقہ کار اور ٹائم فریم کے بارے میں وضاحت چاہتے ہیں ۔"

دونوں ایجنسیوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ نقل مکانی کے اقدامات پر عمل درآمد کرتے وقت انسانی حقوق کے معیارات کو سامنے رکھے ۔

اس سلسلے کے بیان میں وضاحت کی گئی ہے کہ قانونی پناہ گزینوں اورمعاش کے سلسلے میں پاکستان آئے ہوئے افغان شہریوں کی وطن واپسی کے لیے مناسب طریقہ کار کو یقینی بنایا جائے۔

SEE ALSO: پاکستان نے مغربی ممالک کو اپنے افغان اتحادی منتقل کرنے کے لیے ڈیڈ لائن دے دی

واضح رہے کہ پاکستان کی حکومت نے قانونی پناہ گزینوں اور روزگارکے سلسلے میں آئے افغان تارکین وطن کو آئی او ایم کے تعاون سے افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) جاری کیے ہوئے ہیں۔

سرکاری اندازوں کے مطابق ایسے کارڈ رکھنے والے افغان شہریوں کی تعداد 8 لاکھ سے زیادہ ہے۔

پاکستان کے لیےاقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی نمائندہ فلیپا کینڈلر نے کہا، "افغانستان میں جبری واپسی سے کچھ لوگوں کو زیادہ خطرہ درپیش ہو سکتا ہے۔ ہم پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایسے افغان شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا جاری رکھے جنہیں خطرے کا سامنا ہے چاہے ان کی دستاویزات کی حیثیت کچھ بھی ہو۔"

بین الاقوامی ادارہ برائے ہجرت کی اسلام آباد میں تعینات مشن کی سربراہ میو ساٹو نے کہا کہ ان کی تنظیم پاکستان کی حکومت اور یو این ایچ سی آر کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے تاکہ پاکستان میں افغان شہریوں کی رجسٹریشن، ان کا انتظام اور ان کی اسکریننگ کا طریقہ کار وضع کیا جا سکے۔

SEE ALSO: افغان طالبات کے لیے پاکستانی وظائف کا امتحان آگے بڑھنے کی امید ہے

انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے سے مناسب حل کے دروازے کھل جائیں گے اور ان میں ضرورت مندوں کے لیے بین الاقوامی تحفظ اور ملک میں دیرینہ سماجی و اقتصادی اور خاندانی تعلقات رکھنے والے افغان شہریوں کے لیے راہیں بھی شامل ہوں گی۔

سرکاری منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں حکام کو جن افغان شہریوں کو اسلام آباد اور روالپنڈی سے منتقل کر کے افغانستان بھیجنا ہو گا ان میں اے سی سی کارڈ رکھنے والے افراد اور بغیر دستاویز کے پاکستان میں مقیم لوگ بھی شامل ہوں گے۔

خیال رہے کہ پاکستان نے 14 لاکھ سے زائد قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو 30 جون 2025 تک ملک میں رہنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔

نئے منصوبے کے تحت انہیں دوسرے مرحلے میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے نقل مکانی کی ضرورت ہو گی لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ آیا انہیں بھی افغانستان بھیج دیا جائے گا۔

SEE ALSO: افغان پناہ گزین: 'برسوں سے پاکستان میں رہ رہے ہیں، پھر بھی واپس بھیجا جا رہا ہے'

وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ افغان شہریوں کی ملک بدری کے منصوبے کے تیسرے مرحلے میں 31 مارچ تک اسلام آباد اور راولپنڈی سے تقریباً 40 ہزار افغان باشندوں کو نکال دیا جائے اور ان کی کسی تیسرے ملک میں منتقلی اور آباد کاری کے معاملات پر تیزی سے کارروائی نہ ہونے کی صورت میں انہیں ان کے اپنے وطن واپس بھیج دیا جائے۔

یاد رہے کہ یہ افغان افراد 2021 میں طالبان کے دوبارہ ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان آگئے تھے۔

انہیں یہ خطرہ لاحق تھا کہ امریکی اور نیٹو افواج کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے انہیں طالبان کی طرف سے ممکنہ انتقام کا نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔

گزشتہ ماہ، امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی پناہ گزینوں کے داخلے کے پروگرام کو یہ جانچنے کے لیے روک دیا تھا کہ آیا اس کی بحالی واشنگٹن کے مفادات میں ہے۔

اس اقدام کے نتیجے میں پاکستان میں موجود کم از کم 15,000 افغان اتحادیوں کو غیر یقینی کی صورت حال کا سامنا ہے۔