اذیت کے ذریعے حاصل کردہ اعترافی بیان پر پھانسیوں کی سزائیں بند کی جائیں: اقوام متحدہ

A homeless man prepares food as marchers pass by after the members of various labor unions embarked on a nationwide strike over the high cost of living in Cape Town, South Africa.

جون، 2017ء میں اذیت کے خلاف اقوام متحدہ کی کمیٹی نے چار سال پر محیط خفیہ تفتیش مکمل کی اور وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ مصر میں اذیت رسانی کو ایک ''منظم طریقہ کار'' کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے مصر سے مطالبہ کیا ہے کہ پھانسیوں کی سزائیں روکی جائیں اور اِن الزامات کی فوری تفتیش کی جائے کہ اذیتی حربوں کے نتیجے میں حاصل کردہ اعترافی بیانات کو بنیاد بنا کر موت کی سزائیں دی جا رہی ہیں۔

مصر میں فروری کے دوران اب تک 15 افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا ہے، اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے اس جانب توجہ مبذول کرائی ہے کہ ''یہ مہینہ ابھی ختم نہیں ہوا''۔

ادارے نے کہا ہے کہ نو افراد کو اسی ہفتے پھانسی دی گئی، جن پر مصر کے پراسیکوٹر جنرل ہشام برکات کی ہلاکت کا الزام تھا۔

اِسی ماہ کے اوائل میں دیگر چھ افراد کو پھانسی پہ لٹکایا گیا۔ ادارے نے کہا ہے کہ تین افراد کو ایک پولیس اہلکار کے قتل، جب کہ تین کو ایک جج کے بیٹے کو قتل کرنے کے الزام پر موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

ہیومن رائٹس کے دفتر کے ترجمان، روپرٹ کولویل نے کہا ہے کہ ان تمام مقدمات میں مدعا علیہ نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ اُن کو اذیت دے کر اعترافی بیان حاصل کیا گیا، جس کا اُن پر الزام لگایا گیا تھا۔

کولویل نے کہا کہ ''تشویش کا اصل سبب یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ ان تمام یا کچھ معاملات میں منصفانہ عدل کی ضمانت کے اصول کی پاسداری نہیں کی گئی، اور یہ کہ اذیت رسانی کے حربے استعمال کرنے سے متعلق سنجیدہ الزامات کی مناسب تفتیش نہیں کی گئی''۔

جون، 2017ء میں اذیت کے خلاف اقوام متحدہ کی کمیٹی نے چار سال پر محیط خفیہ تفتیش مکمل کی اور وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ مصر میں اذیت رسانی کو ایک ''منظم طریقہ کار'' کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

کولویل نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ تمام معاملات میں اذیت رسانی کے حالیہ الزامات اسی تناظر میں واقع ہوئے، جو طور طریقہ مصر میں وبا کی سی صورت اختیار کر چکا ہے۔