طالبان کے’اخلاقی قوانین‘نے افغانستان کی تنہائی میں مزید اضافہ کیا ہے: اقوام متحدہ

  • طالبان نے افغانستان میں اسلام کی خود اپنی تشریخ کے مطابق اخلاقیات کے قوانین نافذ کیے ہیں جن کا ہدف بطور خاص خواتین ہیں۔
  • اخلاقیات کی وزارت کے اہل کاروں کو قوانین کے نفاذ کا اختیار دیا گیا ہے وہ زبانی انتباہ سے لے کر جرمانے سمیت سزائیں دے سکتے ہیں۔
  • افغانستان میں خواتین کو سر سے پاؤں تک خود کو ڈھاپنے، چہرہ چھپانے، لوگوں میں خاموش رہنے، مرد سرپرست کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلنے کیلئے کہا گیا ہے۔
  • خواتین کو چھٹی جماعت سے آگے پڑھنے کی اجازت نہیں ہے اور زیادہ تر روزگار ان کے لیے ممنوع کر دیا گیا ہے۔
  • اخلاقیات کے قوانین کے تحت غیر مسلموں سے دوستی کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے پیر کو طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میں نام نہاد اخلاقیات کے قوانین کے حالیہ نفاذ پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا جو خواتیں کو آواز اٹھانے سے روکنے یا لوگوں کے سامنے اپنے چہرے اور جسم ڈھانپنے کا حکم دیتے ہیں۔

وولکر ترک نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں کہا کہ نئے قوانین پہلے سے موجود ان قوانین کے ساتھ ساتھ نافذ کیے گئے ہیں جن میں افغان لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول جانے، طالبات کو یونیورسٹی کی تعلیم تک رسائی کرنے سے روکنے اور عوامی زندگی اور روزگار کے مواقع تک خواتین کی رسائی محدود کی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر کا کہنا تھا کہ میں یہ سوچ کر کانپ جاتا ہوں کہ افغانستان کی خواتین اور لڑکیوں کے لیے مسعقبل میں کیا ہے۔ ملک کی آدھی آبادی پر یہ جابرانہ کنٹرول آج کی دنیا میں واحد مثال ہے۔

انہوں نے اخلاقی قوانین کو اشتعال انگیز اور منظم صنفی ظلم و ستم کے مترادف قرار دیتے ہوئے خبردارکیا کہ خواتین پر سخت پابندیاں، افغانستان کو مزید تنہا کر رہی ہیں اور اسے تکلیف اور مشکلات کے راستے پر لے جا رہی ہیں۔

SEE ALSO: اقوامِ متحدہ کا طالبان کے اخلاقی قانون پر خدشات کا اظہار، پریشان کن قرار

ترک کا کہنا تھا کہ یہ قوانین بڑے پیمانے پر ترقی کے عمل کو روک کر اس ملک کے مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال دیں گے۔

افغانستان میں انسانی زندگی کی صورت حال پر نظر رکھنے سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے بھی جنیوا میں پیر کو ہونے والے اجلاس میں بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ طالبان نے انہیں حال میں اپنے مینڈیٹ کے مطابق جائزہ لینے کے لیے ملک کا دورہ کرنے سے روک دیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اخلاقیات کا قانون، تین سال قبل طالبان کے ملک پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیے جانے کے بعد انسانی حقوق کے احترام سے متعلق جبر میں ایک نئے مرحلے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

SEE ALSO: طالبان سپریم لیڈر اخوندزادہ نے اخلاقیات کا قانون منظور کر لیا

اخلاقیات کے قانون کا مسودہ 114 صفحات اور 35 ابواب پر مشتمل ہے جسے طالبان نے پچھلے مہینے نافذ کیا تھا۔ اس قانون میں مختلف کارروائیوں اور مخصوص طرز عمل کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جس پر عمل کرنا یا جس سے بچنا، طالبان اسلامی قانون کی اپنی سخت تشریح کے مطابق افغان مردوں اور عورتوں کے لیے لازمی سمجھتے ہیں۔

ان پابندیوں کے تحت افغان خواتین کو اپنے سرپرست مرد کے بغیر سفر کرنے سے منع کیا گیا ہے، انہیں عوام میں خاموش رہنے، سر سے پاؤں تک خود کو اپنے چہرے سمیت لازمی طور پر ڈھانپنے اور خواتین اور غیر متعلقہ مردوں کے درمیان آنکھ ملا کر بات کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

یہ قانون طالبان کی متنازعہ وزارت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ نیکی کو فروغ دینے اور برائی کو روکنے کے لیے اس کا سختی سے نفاذ کرے۔

SEE ALSO: داڑھی کیوں نہیں رکھی؟ طالبان نے 280 سیکیورٹی اہل کار برطرف کر دیے

طالبان رہنماؤں نے پیر کے اقوام متحدہ کے دعوؤں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، لیکن انہوں نے اخلاقی قوانین پر سابق بین الاقوامی تنقید کو مسترد کر دیا ہے۔

اخلاقیات نافذ کرنے والی وزارت کے اہل کاروں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ جرم کا ارتکاب کرنے والوں کی بیخ کنی کریں۔

اخلاقی قوانین کے تحت زبانی انتباہ سے لے کر جرمانے اور قید تک کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ اخلاقی جرائم میں غیر ازدواجی جنسی تعلقات، ہم جنس پرستی، زندہ چیزوں کی تصویر کشی اور غیر مسلموں سے دوستی کرنا شامل ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

طالبان کے 3 سال: خواتین کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حال ہی میں کہا تھا کہ ’غیر مسلموں کو چاہیے کہ وہ اعتراضات کرنے سے پہلے اسلامی قوانین کے بارے میں آگاہی حاصل کریں اور اسلامی اقدار کا احترام کریں‘۔

ابھی تک کسی بھی ملک نے افغانستان پر طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا جس کی وجہ انسانی حقوق سے منسلک تحفظات اور بالخصوص خواتین کے ساتھ جابرانہ سلوک ہے