اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ اس وقت شام کے شہر رقہ میں، جسے داعش نے اپنا خود ساختہ دارالخلافہ بنا رکھا ہے، عسکریت پسندوں اور مقامی فورسز کے درمیان جاری شدید لڑائیوں میں 20 سے 50 ہزار عام شہری پھنسے ہوئے ہیں۔ مقامی فورسز کو امریکی سرپرستی حاصل ہے۔
جمعرات کے روز اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی امداد سے متعلق شعبے کی سربراہ ارسلا مولر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ صورت حال بہت خطرناک اور مخدوش ہے اور ان لوگوں کے پاس وہاں سے نکلنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
ملر کا کہنا تھا کہ شدید لڑائیوں اور فضائی حملوں کی زد میں آکر درجنوں شہری مارے گئے ہیں اور 30 ہزار سے زیادہ لوگوں کو اپنی جانیں بچانے کے لیے شہر چھوڑنا پڑا ہے۔
شام کی حکومت مخالف قوت سیرین ڈیموکریٹک فورسز نے ، جس میں کرد، عرب اور مسیحی جنگجو شامل ہیں، امریکی سرپرستی میں رقہ کو آزاد کرانے کی کارروائی 6 جون کو شروع کی تھی۔ انہیں امریکی قیادت کے اتحاد کی جانب سے فضائی مدد حاصل تھی۔
شام میں انسانی ہمددردی کی صورت حال پر اپنی ماہانہ رپورٹ میں اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ شہر کے اندر کی صورت حال بہت مخدوش ہے ۔ شہری فضائی حملوں اور زمینی گولہ بارے سے مارے جا رہے ہیں۔ خوراک اور ادویات کی قلت ہے اور دکانیں اور تندور بدستور بند ہیں ۔