اقوام متحدہ کے بچوں کی فلاح و بہبود کے ادارے نے خبردار کیا تھا کہ خوراک کی شدید قلت کے باعث صومالیہ میں ہزاروں بچوں کی ہلاکت کا خطرہ بڑھ گیا ہے کیونکہ عالمی ادارے کے پاس اس کی مدد کے دستیات فنڈز بہت کم ہیں ۔
یونیسیف کا کہنا ہے کہ اس سال اسے اپنی تقریباً 29 کروڑ ڈالر کی ہنگامی مدد کی اپیل کے جواب میں اب تک صرف 12 فی صد فنڈز وصول ہوئے ہیں۔
گذشتہ سال صومالیہ کے جنوبی حصے کو قحط زدہ قرار دیا گیاتھا۔ گو قحط کے اثرات تو ختم ہورہے ہیں لیکن بحران بدستور باقی ہے اور صومالیہ بدستور دنیا کا ایک ایسا علاقہ ہے جہاں انسانی خوراک کی صورت حال انتہائی خراب ہے۔
اقوام متحدہ کے بچوں کی فلاح وبہبود کے ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تقریباً ایک تہائی صومالی باشندے ضروری خوراک اور انتہائی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
ان میں سے 70 فی صد افراد جنوبی اور وسطی صومالیہ میں رہتے ہیں جو جنگوں اور مسلسل خشک سالی کے باعث تباہ ہوچکاہے۔ یونیسیف کے ترجمان مارکسی مرکاڈو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تقربیاً سواتین لاکھ بچوں کو خوراک کی اشد ضرورت ہے۔
صومالیہ میں گذشتہ سال کے آخری حصے میں ایتھوپیا اور کینیا کی فورسز کی جانب سے الشباب سے مقابلے کے لیے ملک میں داخلے کے بعد لڑائیوں نے انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کرلی تھی۔
اسلامی عسکریت پسندوں نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں زیادہ تر غیر ملکی امدادی تنظیموں کی آمد پر پابندی لگادی تھی، جس سے ضرورت مند افرادکے لیے خوراک کی فراہمی کی کوششوں کو سخت نقصان پہنچا تھا۔
یونیسیف کا کہناہے کہ صومالیہ میں 2011ء میں پڑنے والا قحط صرف ایک موسم کے لیے نہیں تھا۔ ادارے کا کہناہے کہ خشک سالی سے باہر نکلنے اور قحط سے بچاؤ کی صورت حال بدستور مخدوش ہے۔
ادارے نے خبردار کیا ہے کہ بارشوں کی قلت ، متاثرہ افراد تک کم تر رسائی ، لوگوں کی مزید بے دخلی اور وبائی ا مراض کے پھوٹ پڑنے کے خطرات بدستور موجود ہیں ۔