دنیا بھر میں کرونا وائرس کی تباہ کاریوں پر غور کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس اس وبا کی جنم بھومی کے تنازع کی نذر ہو گیا ہے۔
جمعرات کو نو رکن ممالک کے مطالبے پر بلایا گیا اجلاس عالمگیر وبا پر بحث کے لیے پہلا اجلاس تھا۔ تاہم امریکہ اور چین کے سفارتی مندوبین نے وائرس کی ابتدا پر بحث کو مرکوز کیے رکھا۔ جب کہ یورپی سفارت کاروں نے امریکہ اور چین کے تنازع پر سلامتی کونسل کے ایکشن نہ لینے پر تنقید بھی کی۔
پندرہ ممالک پر مشتمل سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد مختصر اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس بات کے لیے کوشش کی جارہی ہے کہ آیا سلامتی کونسل کو کرونا وائرس سے متعلق کوئی ایکشن لینا چاہیے یا نہیں۔
اجلاس کے دوران چین نے مخالفت کی کہ سلامتی کونسل کا مینڈیٹ نہیں ہے کہ وہ کرونا وائرس کے معاملے میں مداخلت کرے۔ تاہم امریکہ کی جانب سے اسی بات پر زور دیا جاتا رہا کہ کرونا وائرس سے متعلق کونسل کے کسی بھی ایکشن میں اس وائرس کی جنم بھومی چین کا حوالہ ہونا چاہیے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اجلاس کے دوران چین کے سفیر زان جون نے کرونا وائرس کے معاملے میں سیکیورٹی کونسل کی مداخلت پر اظہار ناراضگی کیا اور کہا کہ یہ معاملہ سلامتی کونسل کا مینڈیٹ نہیں ہے۔
زان جون نے کہا کہ سلامتی کونسل کو کرونا وائرس پر سیاست اور چین کو بدنام کرنے کی ہر کوشش کو مسترد کرنا چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کرونا وائرس کو 'چینی وائرس' قرار دیا تھا جس پر چین نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
چینی سفیر نے مزید کہا کہ اس عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے اتحاد، تعاون اور مخلصانہ حمایت کی ضرورت ہے تاہم الزام تراشیوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔
سلامتی کونسل میں امریکی سفارت کار کیلی کرافٹ نے اجلاس کے دوران کہا کہ دنیا کی نظریں ہم پر لگی ہوئی ہیں اس لیے ہمیں انسانی جانوں کو بچانے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وبا پر قابو پانے کا سب سے مؤثر طریقہ درست معلومات، سائنسی ڈیٹا، اس وائرس کی جنم بھومی کا تجزیہ اور اس کے پھیلاؤ کا جائزہ لینا ہے۔
ایک سینئر یورپی سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر 'رائٹرز' کو بتایا کہ اس وقت یہ فضول بحث ہے کہ اس وائرس کو کیا نام دیا جائے۔ یہ کووڈ 19 ہے جس سے پوری دنیا کے امن اور سیکیورٹی کو خطرہ لاحق ہے۔ سلامتی کونسل کو اس پر پہلے ہی اپنی رائے کا اظہار کر دینا چاہیے تھا۔
بیلجیئم کے سفیر مارک پسٹین نے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں اس اجلاس کا انتظار تھا، یہ وہ وقت تھا جب سب کو متحد ہونا تھا۔ امید ہے کہ یہ ابتدا ہے اور اس کے بہتر نتائج آئیں گے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اجلاس کو کرونا وائرس کی تفصیلات سے متعلق آگاہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ عالمی وبا عالمی امن اور سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے جس کی وجہ سے 200 ملکوں اور خطوں میں اب تک 90 ہزار افراد ہلاک اور لگ بھگ 15 لاکھ متاثر ہیں۔
انتونیو گوتریس نے مزید کہا کہ کرونا وائرس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے نتیجے میں معاشرتی بدامنی اور تشدد میں اضافہ ہو گا، اگر ایسا ہوا تو اس وبا سے لڑنے کی ہماری صلاحیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔