اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کے ادارے کی سربراہ مشل بیچلٹ نے جمعرات کو کہا ہے کہ اسرائیلی فوجوں نے، ہو سکتا ہے کہ غزہ میں حکومت کرنے والے عسکریت پسند گروپ حماس کے خلاف گیارہ روزہ حالیہ لڑائی میں، جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہو۔
انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہلاکت خیز تشدد کے تازہ ترین دور میں فوجی اقدامات کے بارے میں آزادانہ تحقیقات کی بھی اجازت دے۔
ادھر مشرق وسطی کے تنازعہ کے تناظر میں یورپی ملک آئرلینڈ کی پارلیمنٹ نے اسرائیل کے خلاف ایک متفقہ مذمتی قراردار منظور کی ہے جس میں فلسطینیوں کے علاقوں پر اسرائیل کے کنٹرول کو ’ درحقیقت قبضہ‘ قرار دیا ہے۔
انسانی حقوق کی رہنما مشل بیچلٹ کا بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے سب سے بڑے ادارے نے غزہ، مغربی کنارے اور ییروشلم میں انسانی حقوق کی انتہائی خراب صورت حال کے جائزے کے لیے ایک دن کا اجلاس منعقد کیا۔
مشل بیچلٹ نے اس اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ حماس کی جانب سے راکٹوں کا اندھا دھند استعمال بھی جنگی اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی کمشنر نے کونسل کو سال 2014 کے بعد غزہ میں ہونے والی شدید ترین لڑائی کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ جنگ بندی سے قبل یہ لڑائی غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی اور اموات کا سبب بنی ہے۔
گیارہ روزہ لڑائی میں غزہ میں 248 افراد ہلاک ہوئے جن میں 66 بچے اور 39 خواتین بھی شامل ہیں۔ اسرائیل میں بھی 12 افراد حماس کے راکٹوں میں ہلاک ہوئے جن میں دو بچے شامل تھے۔
مشل بیچلٹ نے کہا کہ گنجان آبادی والے اس علاقے میں فضائی حملے بڑے پیمانے پر عام شہریوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کا سبب بنے اور ساتھ ہی ساتھ سویلین انفراسٹرکچر کو بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کے الفاظ تھے، ’’ ایسے حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتے ہیں، اگر وہ عام شہریوں پر بلاامتیاز اور غیر متناسب اثرات کے حامل ہوں‘‘
مشل بیچلٹ نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تحقیقات کے ذریعے اس طرح کے حالات میں جوابدہی کے عمل کو یقینی بنائے۔
انسانی حقوق کی کمشنر نے حماس کے حربوں پر بھی تنقید کی جن میں گنجان آبادی والے علاقوں میں فوجی اڈے قائم کرنا اور اندھا دھند راکٹ فائر کرنا شامل ہے۔
ان کے الفاظ میں، ’’ یہ راکٹ حملے بلا امتیاز تھے اور فوجی اور عام شہریوں کو ہدف بنانے میں کسی تمیز میں ناکام رہے۔ ان راکٹوں کا استعمال بین الاقوامی انسانی قانون کی واضح خلاف ورزی ہے‘‘
اسرائیل، جسے کئی مواقعوں پر امریکہ کی حمایت حاصل رہی ہے، اقوام متحدہ کی کونسل پر اسرائیل کے خلاف تعصب روا رکھنے کا الزام عائد کرتا ہے اور اس طرح کی تحقیقات میں تعاون سے عام طور پر انکار کرتا آیا ہے۔
اسرائیل کی سفیر میرو ایلن شاہر نے کہا ہے کہ حماس نے، جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دی جا چکی ہے، فلسطینی گھروں، اسپتالوں اور اسکولوں سے اسرائیلی شہریوں پر چار ہزار چار سو راکٹ حملے کیے۔ ہر راکٹ حملہ، ان کے الفاظ میں جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
اسرائیلی سفیر نے سوال اٹھایا ’’ اگر یہ راکٹ حملے ڈبلن، پیرس یا میڈریڈ پر کیے جاتے تو آپ کا ردعمل کیا ہوتا؟‘‘
فلسطینیوں کے وزیرخارجہ ریاض المالکی نے اجلاس کے دوران اسرائیل کے کنٹرول والے علاقوں میں فلسطینیوں کی برسوں پر محیط مشکلات کو اجاگر کیا۔ اپنے وڈیو پیغام میں ان کا کہنا تھا:
’’اسرائیل کی جنگی مشینری اور دہشت گردی ہمارے بچوں کو مسلسل ہدف بنائے ہوئے ہے۔ ہمارے بچے جن کو قتل، گرفتاریوں اور گمشدگیوں کا سامنا ہے، وہ ایسے مستقبل سے محروم ہیں جس میں امن اور تحفظ ہو۔‘‘
ادھر آئرلینڈ کی پارلیمنٹ نے اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں کو الگ کرنے کے خلاف مذمتی قراردار کے حق میں ووٹ دیا ہے اور پہلی بار یورپی یونین میں شامل کسی ملک کی طرف سے اس کے لیے ’’ ڈی فیکٹو انیکسیشن‘‘ یعنی ’ فی الحقیقت قبضہ‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق، حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے ‘ بدھ کو متفقہ طور پر اس قراردار کی حمایت کی جو فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے رویے کی مذمت کرتی ہے۔
وزیرخارجہ سائمن کووینے نے آئرلینڈ کے ایوان زیریں میں اس رائے شماری کو اپنے پورے ملک میں پائے جانے والے احساسات کا واضح اشارہ قرار دیا۔
اسرائیل نے اپنے ردعمل میں اس قراردار کی فوری طور پر مذمت کی ہے اور اس کو ایک اشتعال انگیز، بے بنیاد اور فلسطینیوں کے انتہاپسند دھڑوں کی فتح قرار دیا ہے۔ اسرائیل کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان لیورر حائط نے، گارڈین کے مطابق، اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ قراردار آئرلینڈ کو اس تنازعے میں تعمیری کردار ادا کرنے سے دور کر رہی ہے۔
آئرلینڈ میں حزب اختلاف کی جماعت کے ایک رکن پارلیمنٹ جان بریڈے نے اس متفقہ قراردار کی منظوری کو انصاف کی فتح قرار دیا ہے۔