شام کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے باعث روزانہ آٹھ ہزار شہری اپنی زندگی کو لاحق خطرات کے باعث گھر بار چھوڑ کر پناہ حاصل کرنے کی غرض سے پڑوسی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔
واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی کےباعث اپنا گھر بار چھوڑ کر پڑوسی ممالک میں پناہ حاصل کرنے والے شامی باشندوں کی تعداد 13 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔
عالمی ادارے کی پناہ گزینوں سے متعلق ایجنسی 'یو این ایچ سی آر' نے خبردار کیا ہے کہ اگر شام کےبحران کا سیاسی حل تلاش نہ کیا گیا تو رواں سال کے اختتام تک پناہ گزینوں کی تعداد تین گنا ہونے کا اندیشہ ہے۔
'یو این ایچ سی آر' نے منگل کو جاری کیے جانے والے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شام کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے باعث روزانہ آٹھ ہزار شہری اپنی زندگی کو لاحق خطرات کے باعث گھر بار چھوڑ کر پناہ حاصل کرنے کی غرض سے پڑوسی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔
ادارے کے شام کے لیے نمائندہ خصوصی پنوس مومزس نےبیان میں کہا ہے کہ شام سے لوگوں کے بڑی تعداد میں انخلا کے باعث پڑوسی ممالک اردن، لبنان، ترکی اور عراق میں اب تک رجسٹرڈ کیے جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد 13 لاکھ تک جاپہنچی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس تعداد میں غیر رجسٹرڈ پناہ گزین شامل نہیں لہذا اندیشہ ہے کہ شام کے پڑوسی ممالک میں مقیم شامی پناہ گزینوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ ایک برس قبل ان ممالک میں پناہ حاصل کرنے والے شامی باشندوں کی تعداد صرف 30 ہزار تھی ۔
پنوس مومزس کے مطابق پناہ گزینوں میں سے 75 فی صد خواتین اور بچے ہیں جن کو بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی میں عالمی ادارے کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
'یو این ایچ سی آر' نے شامی پناہ گزینوں کو رواں سال جون تک امداد کی فراہمی کے لیے ایک ارب ڈالر کے عطیات کی اپیل کی تھی جن میں سے اسے اب تک صرف ایک تہائی عطیات ہی موصول ہوئے ہیں۔
لیکن عالمی ادارے کے عہدیدار کے مطابق وسائل کی کمی کے باوجود اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے جنوری سے اپنی سرگرمیوں کے دائرے میں مسلسل اضافہ کر تے آئے ہیں جنہیں مزید جاری رکھنا اب ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔
پنوس مومزس نے کہا کہ عالمی ادارے کی امدادی ایجنسیوں کو اس وقت شدید مالی تنگی کا سامنا ہے جس کے باعث امدادی کاموں کا دائرہ محدود کرنا پڑا ہے۔ ان کے بقول پناہ گزینوں کے موجودہ کیمپوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ لوگ آن بسے ہیں اور نئے کیمپوں کا قیام ناگزیر ہوگیا ہے۔
عالمی ادارے کے عہدیدار کے مطابق رواں سال کے آغاز میں شام کے بحران پر کویت میں ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں مختلف ملکوں نے عالمی ادارے کو ڈیڑھ ارب ڈالر کے عطیات دینے کا وعدہ کیا تھا جن میں سے ادارے کو اب تک صرف 400 ملین ڈالر وصول ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عطیات دینے والے مغربی ممالک نے اپنے وعدوں کا پاس کیا ہے لیکن ایک ارب ڈالر دینے کی یقین دہانی کرانے والی خلیجی عرب ریاستوں نے اب تک اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔
عالمی ادارے کی پناہ گزینوں سے متعلق ایجنسی 'یو این ایچ سی آر' نے خبردار کیا ہے کہ اگر شام کےبحران کا سیاسی حل تلاش نہ کیا گیا تو رواں سال کے اختتام تک پناہ گزینوں کی تعداد تین گنا ہونے کا اندیشہ ہے۔
'یو این ایچ سی آر' نے منگل کو جاری کیے جانے والے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شام کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے باعث روزانہ آٹھ ہزار شہری اپنی زندگی کو لاحق خطرات کے باعث گھر بار چھوڑ کر پناہ حاصل کرنے کی غرض سے پڑوسی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔
ادارے کے شام کے لیے نمائندہ خصوصی پنوس مومزس نےبیان میں کہا ہے کہ شام سے لوگوں کے بڑی تعداد میں انخلا کے باعث پڑوسی ممالک اردن، لبنان، ترکی اور عراق میں اب تک رجسٹرڈ کیے جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد 13 لاکھ تک جاپہنچی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس تعداد میں غیر رجسٹرڈ پناہ گزین شامل نہیں لہذا اندیشہ ہے کہ شام کے پڑوسی ممالک میں مقیم شامی پناہ گزینوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ ایک برس قبل ان ممالک میں پناہ حاصل کرنے والے شامی باشندوں کی تعداد صرف 30 ہزار تھی ۔
پنوس مومزس کے مطابق پناہ گزینوں میں سے 75 فی صد خواتین اور بچے ہیں جن کو بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی میں عالمی ادارے کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
'یو این ایچ سی آر' نے شامی پناہ گزینوں کو رواں سال جون تک امداد کی فراہمی کے لیے ایک ارب ڈالر کے عطیات کی اپیل کی تھی جن میں سے اسے اب تک صرف ایک تہائی عطیات ہی موصول ہوئے ہیں۔
لیکن عالمی ادارے کے عہدیدار کے مطابق وسائل کی کمی کے باوجود اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے جنوری سے اپنی سرگرمیوں کے دائرے میں مسلسل اضافہ کر تے آئے ہیں جنہیں مزید جاری رکھنا اب ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔
پنوس مومزس نے کہا کہ عالمی ادارے کی امدادی ایجنسیوں کو اس وقت شدید مالی تنگی کا سامنا ہے جس کے باعث امدادی کاموں کا دائرہ محدود کرنا پڑا ہے۔ ان کے بقول پناہ گزینوں کے موجودہ کیمپوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ لوگ آن بسے ہیں اور نئے کیمپوں کا قیام ناگزیر ہوگیا ہے۔
عالمی ادارے کے عہدیدار کے مطابق رواں سال کے آغاز میں شام کے بحران پر کویت میں ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں مختلف ملکوں نے عالمی ادارے کو ڈیڑھ ارب ڈالر کے عطیات دینے کا وعدہ کیا تھا جن میں سے ادارے کو اب تک صرف 400 ملین ڈالر وصول ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عطیات دینے والے مغربی ممالک نے اپنے وعدوں کا پاس کیا ہے لیکن ایک ارب ڈالر دینے کی یقین دہانی کرانے والی خلیجی عرب ریاستوں نے اب تک اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔