غزہ جنگ کے بعد گرفتار فلسطینیوں کو اسرائیل میں تشدد اور ناروا سلوک کا سامنا ہے: اقوام متحدہ

ایک اسرائیلی فوجی مرکز سد نعمان میں اسرائیلی فوجی کھڑے ہیں۔ اس تنصیب کے حراستی مرکز میں ایک فلسطینی سے غیر انسانی سلوک کرنے پر 9 اسرائیلی فوجیوں کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں۔ 31 جولائی 2024

  • غزہ میں جنگ کے بعد سے اسرائیل نے ہزاروں فلسطینیوں کو گرفتار کیا ہے جن میں مرد، عورتیں، بچے، صحافی اور امدادی کارکن شامل ہیں۔
  • رپورٹ کے مطابق حراست میں لیے گئے افراد کی تعداد 9400 ہے۔
  • اقوام متحدہ کی رپورٹ میں متاثرہ افراد کے انٹرویوز کے حوالے سے بتایا گیا ہے قیدیوں کو واٹربورڈنگ، مسلسل جگائے رکھنے، کھانے پینے کو نہ دینے، چھت سے لٹکانے، برہنہ رکھنے اور ان پر کتے چھوڑنے جیسے تشدد کا سامنا ہے۔
  • اسرائیلی فوج نے کہا کہ زیر حراست افراد کے ساتھ بدسلوکی غیر قانونی اور فوجی احکامات کے خلاف ہے۔ حراست کے دوران قیدیوں کی تمام اموات کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔

7 اکتوبر کے حملوں کے بعد سے اسرائیل کے زیر حراست فلسطینیوں کو واٹر بورڈنگ، مسلسل جگائے رکھنے، ان پر کتے چھوڑنے اور اسی قسم کے دوسرے تشدد اور بدسلوکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، یہ تفصیل اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی بدھ کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کی جیل سروس نے جون کے آخر تک 9400 سے زیادہ فلسطینیوں کو سیکیورٹی کے پیش نظرحراست میں رکھا ہوا تھا، اور ان میں سے کچھ کی معلومات کو خفیہ رکھا گیا گیا تھا اور انہیں اپنے وکلاء اور اپنے قانونی حقوق تک رسائی نہیں دی گئی تھی۔

رپورٹ میں ایسے افراد کے انٹرویوز کا خلاصہ شامل کیا گیا ہے جنہیں حراست میں رکھا گیا تھا اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات بھی شامل کی گئی ہیں۔

رپورٹ میں زیر حراست افراد کی حیران کن حد تک نمایاں تعداد کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ قیدیوں میں مرد، خواتین، بچے، صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن بھی شامل ہیں۔ اس طرح کی من مانی گرفتاریوں سے تشویش میں اضافہ ہوتا ہے۔

SEE ALSO: فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی غیر قانونی ہے، عالمی عدالتِ انصاف

انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ وولکر ترک نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ، ’میرے دفتر اور دیگر اداروں کی جمع کی گئی شہادتیں، بین الاقوامی انسانی قانون، اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کے خوفناک واقعات کی نشاندہی کرتی ہیں، جن میں واٹر بورڈنگ اور قیدیوں پر کتے چھوڑنے جیسی کارروائیاں شامل ہیں‘۔

رپورٹ سے جن واقعات کی نشاندہی ہوئی ہے، ان کی نوعیت ایسی ہے جنہیں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے وہ پراسیکیوٹرز استعمال کر سکتے ہیں جو حماس کے 7 اکتوبر کے دہشت گرد حملوں اور غزہ میں اسرائیل کی جاری فوجی مہم میں جرائم کے حوالے سے تحقیقات کر رہے ہیں۔

مئی میں عالمی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر نے غزہ کی پٹی اور اسرائیل میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر اسرائیل اور حماس کے لیڈروں کی گرفتاری کے وارنٹ کی استدعا کی تھی جن میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بھی شامل تھے۔

SEE ALSO: اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں قتل عام کے مقدمے میں شامل ہونے کے لیے اسپین کی درخواست

مصنفین نے کہا ہے کہ اس رپورٹ میں شامل مواد اسرائیلی حکام کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔

اسرائیل کیا کہتا ہے؟

رپورٹ کے جواب میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ زیر حراست افراد کے ساتھ بدسلوکی غیر قانونی اور فوجی احکامات کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے ایسے واقعات سامنے آنے پر، قیدیوں کے ساتھ سلوک میں فوجی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر جیل کے اصلاحی عملے کو برطرف کر دیا گیا۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ حراست کے دوران قیدیوں کی تمام اموات کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔

اسرائیل کے جیل حکام نے ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔

اس سے قبل جیل کے حکام نے اے پی کو بتایا تھا کہ تمام فلسطینی قیدیوں کے ساتھ اسرائیل کے قانون کے مطابق برتاؤ کیا جاتا ہے۔ تاہم، اسرائیل کی وزارت قومی سلامتی کا، جو جیلوں کا انچارج ادارہ ہے، کہنا ہے کہ اس نے فعال طور پر جیل میں حالات کو مزید سخت کر دیا ہے اور جان بوجھ کر سکییورٹی الزامات کے تحت رکھے جانے والے فلسطینیوں کے سیلز کو گنجائش سے زیادہ بھر دیا جاتا ہے تاکہ انہیں روکا جاسکے۔

اس وزارت کے سربراہ کٹر قوم پرست وزیر اتمار بن گویئر ہیں جو ایک عرصے سے دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار فلسطینی قیدیوں کے لیے سزائے موت سمیت سخت سزاؤں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

SEE ALSO: یرغمالوں کی رہائی کے لیے اسرائیلی حملے میں شہری ہلاکتیں ممکنہ جنگی جرائم ہیں: اقوام متحدہ

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ، اسرائیل اور مغربی کنارے سے گرفتار کیا گیا ہے اور ان میں سے اکثر کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کہاں ہیں اور ان کا مقدر کیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے ریڈکراس کی بین الاقوامی کمیٹی کو ان تنصیبات تک رسائی دینے سے انکار کیا جہاں فلسطینی قیدیوں کو رکھا جا رہا ہے۔

ان فلسطیینوں نے، جو حراست میں رہ چکے ہیں، بتایا کہ انہیں پنجرے نما جگہوں میں بند کیا گیا۔ طویل عرصے تک برہنہ رکھا گیا اور صرف ڈائپر پہننے کی اجازت دی گئی۔ کئی ایک نے بتایا کہ طویل عرصے تک ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی۔ انہیں پانی اور خوراک سے محروم رکھا گیا۔ انہیں مسلسل سونے نہیں دیا گیا۔ بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور ان کے بدن سلگتے سگریٹوں سے داغے گئے۔

رپورٹ کے خلاصے میں مزید کہا گیا ہے کہ حراست میں رہنے والے کچھ فلسطینیوں نے بتایا کہ ان پر کتے چھوڑے گئے ۔ کچھ نے کہا کہ انہیں واٹر بورڈنگ کی سزا دی گئی۔ کئی ایک کو ہاتھ باندھ کر چھت سے لٹکایا گیا۔ کچھ خواتین اور مردوں نے کہا کہ انہیں جنسی اور صنفی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی بھی من مانی حراستیں، تشدد اور بدسلوکیاں جاری رکھے ہوئے ہے، جس کا بنیادی مقصد تنقید اور سیاسی مخالفت کو کچلنا ہے۔

SEE ALSO: اسرائیلی اور حماس رہنماؤں کی گرفتاری کی سفارش کرنے والے ماہرین کےپینل میں شامل ’امل کلونی‘ کون ہیں؟

فلسطینی قیدی کے ساتھ زیادتی کی اسرائیلی فوج کی تحقیقات

بدھ کے روز ایک اسرائیلی فوجی عدالت نے حراست میں لیے گئے نو میں سے آٹھ اسرائیلی فوجیوں کی حراست میں توسیع کر دی ہے۔ ان فوجیوں پر سدتعمان کے حراستی مرکز میں ایک فلسطینی کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات ہیں۔

فوجیوں کی رہائی کے لیے ان کے حامی مظاہرے کر رہے ہیں۔

SEE ALSO: فلسطینی قیدی کے ساتھ زیادتی کے الزامات کی تحقیقات پر فوج اور حکومتی ارکان میں تناؤ

غزہ جنگ، 7اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے دہشت گرد حملے کے ردعمل میں شروع ہوئی تھی۔ اس حملے میں تقربیاً 1200 افراد ہلاک اور 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 39000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ وزارت یہ نہیں بتاتی کہ ان میں کتنے جنگجو تھے۔ غزہ کی پٹی کا بڑا حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ تقریباً 80 فی صد فلسطینی پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔

(اس رپورٹ کے لیے معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)