اقوام متحدہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد شامی شہریوں کو عارضی جنگ بندی کے تیسرے دن پیر سے امدادی اشیا کی فراہمی کا ارادہ رکھتی ہے۔
شام کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار یعقوب الحلو نے کہا کہ محصور علاقوں میں پیر سے جمعہ کے درمیان امداد پہنچانے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "گزشتہ پانچ سالوں کے دوران شامی شہریوں کے لیے پائیدار امن و استحکام کا یہ ایک بہترین موقع ہے۔"
عارضی جنگ بندی ہفتے کی صبح شروع ہوئی اور دونوں فریقوں کی طرف سے خلاف ورزی کے متعدد دعووں کے باوجود اس پر بڑی حد تک عمل کیا جارہا ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق روس نے ترکی پر نو بار عارضی جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے جبکہ شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق "دہشت گرد گروپوں" نے ملک کے ساحلی صوبے کے دیہاتی علاقوں میں ترکی کی سرحد کے قریب واقع پہاڑیوں سے مارٹر گولے فائر کیے ہیں۔
ایک اعلیٰ سعودی عہدیدار نے الزام عائد کیا کہ شام میں "شامی اور روسی فوجوں نے عارضی جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔"
سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ریاض میں کہا کہ "ہم (17 ملکوں پر مشتمل) شامی سپورٹ گروپ سے اس معاملے پر بات کر رہے ہیں۔"
شامی شہریوں کی ایک بڑی تعداد عارضی جنگ بندی سے فائدہ اٹھا رہی ہے تاہم اتوار کو ہونے والی فضائی کارروائیوں کی وجہ سے متعدد شہروں میں اس کی خلاف ورزیاں کی گئیں۔
برطانیہ میں قائم ’سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کا کہنا ہے کہ ان فضائی کارروائیوں میں کم از کم چھ دیہاتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ تاہم حملہ کرنے والے طیارے کی شںاخت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے اور نہ ہی یہ واضح کیا گیا ہے کہ ان کارروائیوں میں کیا وہ علاقے بھی شامل ہیں جہاں عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔
اس عارضی جنگ بندی کا اطلاق داعش اور القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں گروپوں کے زیر قبضہ علاقوں میں ہونے والی کارروائیوں پر نہیں کیا جا رہا۔
شام کے لیے عارضی جنگ بندی کی منظوری سلامتی کونسل کے ارکان کی طرف سے متفقہ طور دی گئی اور اس اجلاس کے دوران شام پر اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب اسٹافن ڈی مستورا نے کہا تھا کہ اگر عارضی جنگ بندی پر بڑی حد تک عمل ہوتا ہے اور اس دوران امدادی اشیا کی فراہمی جاری رہتی ہے تو وہ 7 مارچ کو شامی دھڑوں کے امن مذاکرات جنیوا میں دوبارہ کروا سکتے ہیں۔