فلسطین کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش اور امریکہ کا ممکنہ ردعمل

فلسطین کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش اور امریکہ کا ممکنہ ردعمل

فلسطینی حکومت کے اس عہد نے کہ وہ اگلے ہفتے اقوامِ متحدہ کی پوری رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی، اسے امریکہ کے ساتھ ممکنہ سفارتی ٹکراؤ کی راہ پر ڈال دیا ہے ۔ اوباما انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایسی قرار داد کو ویٹو کردے گی۔ علاقائی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس قسم کے اقدام سے مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے تعلقات متاثر ہوں گے ۔

فلسطینی برسوں سے اپنی الگ مملکت کے لیے جدو جہد کرتے رہے ہیں۔

تشدد کے ذریعے،پر امن احتجاجوں کے ذریعے اور برسوں کے مذاکرات کے ذریعے اور اب انھوں نے اقوامِ متحدہ میں جانے کا عزم کیا ہے۔

فلسطینی وزیرِخارجہ ریاض المالکی کہتے ہیں کہ اگر امریکہ اور دوسرے ملکوں کے سفارتکار مشرقِ وسطیٰ کے امن مذاکرات کے لیے کوئی ٹھوس اور قابلِ اعتبار تجویز پیش نہیں کرتے، تو فلسطینی صدر اقوامِ متحدہ میں باقاعدہ مملکت کا درجہ طلب کریں گے۔

’’صدر محمود عباس مملکت فلسطین کی سرکاری درخواست اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے سامنے پیش کریں گے۔‘‘

اس فیصلے سے فلسطینیوں کا امریکہ کے ساتھ تصادم نا گزیر ہو جائے گا۔ امریکہ کا شمار فلسطینیوں کو سب سے زیادہ امداد دینے والے ملکوں میں ہوتا ہے۔ صدر براک اوباما نے کہا ہے’’فلسطینیوں کی اسرائیل کی قانونی حیثیت ختم کرنے کی کوششیں ناکام ہوں گی ۔ ستمبر میں اقوام متحدہ میں اسرائیل کو الگ تھلگ کرنے کے علامتی اقدامات سے کوئی آزاد مملکت وجود میں نہیں آئے گی۔‘‘

فلسطینیوں نے اقوام متحدہ میں اس اقدام کی حمایت میں مظاہروں کی اپیل کی ہے ۔ امریکہ نے دھمکی دی ہےکہ اگر یہ معاملہ سلامتی کونسل کے سامنے آیا، تو وہ اپنا ویٹو استعمال کرے گا۔ وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کے لیے کہا ہے۔’’پائیدار حل کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے فریقین کے درمیان براہِ راست مذاکرات، اور مذاکرات کی راہ یروشلم اور رام اللہ میں ہے، ، نیو یارک میں نہیں۔‘‘

علاقائی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فلسطینی منصوبے کی مخالفت سے عرب دنیا میں امریکہ مخالف جذبات مشتعل ہو سکتے ہیں،جہاں پہلے ہی سیاسی تبدیلی کا عمل جاری ہے اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے ۔

غیث العمری فلسطین کے بارے میں امریکن ٹاسک فورس کے ایگزیکوٹو ڈائریکٹر ہیں۔’’مزید مظاہرے ہوں گے جن میں عرب موسم بہار میں امریکہ مخالف جذبات کوزیادہ مرکزی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی حامی حکومتوں کے لیئے کام کرنا اورمشکل ہو جائے گا کیوں کہ تعاون کی گنجائش کم ہو جائے گی۔‘‘

مشرقِ وسطیٰ کے امورکے ماہر ڈیوڈ ماکووسکی کہتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ کے لیے کچھ اور امور بھی تشویش کا باعث ہیں۔’’خارجہ پالیسی، داخلی بحران،اور دوبارہ منتخب ہونے کے مسائل میں، اس وقت ان کی ترجیحات مختلف ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے پر انھوں نے اپنا بہت سے سیاسی سرمایہ خرچ کر دیا ہے، اور اس کے عوض انہیں حاصل کچھ نہیں ہوا ہے ۔‘‘

امریکی قانون ساز کہتے ہیں کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے اقدام سے اس امداد کے لیے سنگین نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں جو امریکہ فلسطینیوں کو دیتا ہے ۔ ایوانِ نمائندگان کے رکن ہاورڈ برمن کہتے ہیں’’حالیہ برسوں میں ہم نے انہیں جو کروڑوں ڈالرکی سالانہ امداد دی ہے، امکان یہی ہے کہ وہ ختم کر دی جائے گی اور اس کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی ختم ہو سکتی ہے ۔‘‘

اس پر اسرائیلیوں کو تشویش ہے جنہیں ڈر ہے کہ اقوام متحدہ میں ووٹ کے بعد، تشدد پھوٹ سکتا ہے ۔ قومی سلامتی کے اسرائیلی ماہر آموس یلدن کہتے ہیں’’اس کی ابتدا پتھروں اور مولوٹو کوکٹیلز سے ہو گی، اور جلد ہی دونوں طور سے گولیاں چلنی شروع ہو سکتی ہیں۔‘‘

فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ میں کیے جانے والے اقدام کامطلب یہ نہیں ہو گا کہ مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ لیکن اسرائیلیوں کو ڈر ہے کہ اس اقدام کے اثرات،خاص طور سے تشدد کی وجہ سے، امن کاعمل ختم ہو سکتا ہے ۔